اپنی دانشوری سے ڈرتا ہوں

اپنی دانشوری سے ڈرتا ہوں
جاہلوں کو سلام کرتا ہوں


کیسا ناداں ہوں زندگی میں بھی
تیری چاہت میں روز مرتا ہوں


اس میں پستی بھی ساتھ دیتی ہے
جب بلندی سے میں اترتا ہوں


جانے کس وقت موت آ جائے
بس یہی سوچ کر سنورتا ہوں


مجھ کو محسوس کر کہ میں تجھ سے
خوشبوؤں کی طرح گزرتا ہوں


آسماں تک یہیں سے رستہ ہے
دل کی گہرائی میں اترتا ہوں


جب یقیں ہو چکا کہ ہوں جاویدؔ
اپنے ہونے سے اب مکرتا ہوں