اپنی آنکھوں سے جو وہ اوجھل ہے
اپنی آنکھوں سے جو وہ اوجھل ہے
دل تڑپتا ہے جان بیکل ہے
پھلجڑی ہے ازار بند نہیں
ناف سے پاؤں تک جھلا جھل ہے
نہ چھلاوے میں ہے نہ بجلی میں
تیری رفتار میں جو چھلبل ہے
نازکی میں صفا میں بو میں وہ جسم
پھول ہے آئنہ ہے صندل ہے
ڈور تار شعاع ہے اے مہرؔ
آفتاب اس پری کا تکل ہے