اپنی مدد آپ
خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔
یہ ایک نہایت عمدہ اور آزمودہ مقولہ ہے۔ اس چھوٹے سے فقرے میں انسانوں کا اور قوموں کا اور نسلوں کا تجربہ جمع ہے۔ ایک شخص میں اپنی مدد کرنے کا جوش اس کی سچی ترقی کی بنیاد ہے اور جب یہ جوش بہت سے شخصوں میں پایا جاوے تو وہ قومی ترقی اور قومی طاقت اور قومی مضبوطی کی جڑ ہے۔ جب کہ کسی شخص کے لیے یا کسی گروہ کے لیے کوئی دوسرا کچھ کرتا ہے تو اس شخص میں سے یا اس گروہ میں سے وہ جوش اپنی مدد آپ کرنے کی کم ہو جاتا ہے اور ضرورت اپنے آپ مدد کرنے کی اس کے دل سے مٹتی جاتی ہے اور اسی کے ساتھ غیرت جو ایک نہایت عمدہ قوت انسان میں ہے اور اسی کے ساتھ عزت جو اصلی چمک دمک انسان کی ہے از خود جاتی رہتی ہے اور جب کہ ایک قوم کی قوم کا یہ حال ہو تو وہ ساری قوم دوسری قوموں کی آنکھ میں ذلیل اور بے غیرت اور بے عزت ہو جاتی ہے۔
آدمی جس قدر کہ دوسرے پر بھروسے کرتے جاتے ہیں، خواہ اپنی بھلائی اور اپنی ترقی کا بھروسہ گورنمنٹ ہی پر کیوں نہ کریں (یہ امر بدیہی اور لا بدی ہے) وہ اسی قدر بے مدد اور بے عزت ہوتے جاتے ہیں۔ اے میرے ہم وطن بھائیو! کیا تمہار ا یہی حال نہیں ہے؟ ایشیا کی تمام قومیں یہی سمجھتی رہی ہیں کہ اچھا بادشاہ ہی رعایا کی ترقی اور خوشی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یورپ کے لوگ جو ایشیا کے لوگوں سے زیادہ ترقی کر گئے تھے، یہ سمجھتے تھے کہ ایک عمدہ انتظام قوم کی عزت و بھلائی و خوشی اور ترقی کا ذریعہ ہے، خواہ وہ انتظام باہمی قوم کے رسم و رواج کا ہو، یا گورنمنٹ کا۔ اور یہی سبب ہے کہ یورپ کے لوگ قانون بنانے والی مجلسوں کو بہت بڑا ذریعہ انسان کی ترقی اور خیال کرکر ان کا درجہ سب سے اعلیٰ اور نہایت بیش بہا سمجھتے تھے، مگر حقیقت میں یہ سب خیال غلط ہیں۔
ایک شخص فرض کرو کہ وہ لندن میں آئرلینڈ کی طرف سے پارلیمنٹ کا ممبر ہی کیوں نہ ہو جائے یا کلکتہ میں وائسرائے اور گورنر جنرل کی کونسل میں ہندوستان کا ممبر ہی ہو کر کیوں نہ بیٹھ جاوے، قومی عزت، قومی بھلائی اور قومی ترقی کیا کر سکتا ہے۔ برس دو برس میں کسی بات پر ووٹ دے دینے سے گو وہ کیسی ہی ایمانداری اور انصاف سے کیوں نہ دیا ہو قوم کی کیا بھلائی ہو سکتی ہے۔ بلکہ خوداس کے چال چلن پر اس کے برتاؤ پر بھی اس سے کوئی اثر پیدا نہیں ہوتا تو قوم کے برتاؤ پر کیا اثر پیدا ہو سکتا ہے۔ ہاں یہ بات بے شبہ ہے کہ گورنمنٹ سے انسان کے برتاؤ میں کچھ مدد نہیں ملتی، مگر عمدہ گورنمنٹ سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی آزادی سے اپنے قوا کی تکمیل اور اپنی شخصی حالت کی ترقی کر سکتا ہے۔
یہ بات روز بروز روشن ہوتی جاتی ہے کہ گورنمنٹ کا فرض بہ نسبت مثبت اور معمل ہونے کے زیادہ تر منفی اور مانع ہے اور وہ فرض جان اور مال اور آزادی کی حفاظت ہے۔ جب کہ قانون کا عمل در آمد دانشمندی سے ہوتا ہے تو آدمی اپنی جسمی اور ذہنی محنت کے ثمروں کا بے خطرہ حظ اٹھا سکتا ہے۔ جس قدر گورنمنٹ کی حکومت عمدہ ہوتی ہے اتنا ہی ذاتی نقصان کم ہوتا ہے۔ مگر کوئی قانون گو وہ وہ کیسا ہی ابھارنے والا کیوں نہ ہو، سست آدمی کو محنتی، فضول خرچ کو کفایت شعار، شراب خور کو تائب نہیں بنا سکتا، بلکہ یہ باتیں شخصی محنت، کفایت شعاری، نفس کشی سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ قومی ترقی، قومی عزت، قومی اصلاح، عمدہ عادتوں، عمدہ چال چلن، عمدہ برتاؤ کرنے سے ہوتی ہے، نہ گورنمنٹ میں بڑے بڑے حقوق اور اعلی اعلی درجے حاصل کرنے سے۔
پرانے لوگوں کا مقولہ ہے کہ ’’الناس علی دین ملوکہم۔’‘ اگر اس مقولے میں ’’الناس‘‘ سے چند خاص آدمی مراد لئے جاویں جو بادشاہ کے مقرّب ہوتے ہیں تو یہ مقولہ صحیح ہے اور اگر یہ معنی لئے جاویں کہ رعایا اپنی گورنمنٹ کی سی ہو جاتی ہے تویہ مقولہ صحیح نہیں ہے۔ ریایا کبھی گورنمنٹ کے رنگ میں نہیں رنگی جاتی بلکہ گورنمنٹ رعایا کا سا رنگ بدلتی جاتی ہے۔ نہایت ٹھیک بات ہے کہ گورنمنٹ عموماً ان لوگوں کا جن پر وہ حکومت کرتی ہے عکس ہوتی ہے۔ جو رنگ ان کا ہوتا ہے اسی کا عکس گورنمنٹ میں پایا جاتا ہے۔ جو گورنمنٹ اپنی رعایا سے تہذیب و شائستگی میں آگے بڑھی ہوئی ہے، رعایا اس کو زبردستی سے پیچھے کھینچ لاتی ہے اور جو گورنمنٹ کمتر اور تہذیب و شائستگی میں پیچھے ہوتی ہے وہ ترقی کی دوڑ میں رعایا کے ساتھ کھنچ جاتی ہے۔
تاریخ کے دیکھنے سے ثابت ہے کہ ہندوستان و انگلستان کا یہی حال ہوا۔ انگلستان کی رعایا تہذیب و شائستگی میں اس زمانے کی گورنمنٹ سے آگے بڑھی ہوئی تھی، اس نے زبردستی سے گورنمنٹ کو اپنے ساتھ آگے کھینچ لیا۔ ہندوستان کی رعایا تہذیب و شائستگی میں موجودہ گورنمنٹ سے کوسوں پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ گورنمنٹ کتنا کچھ کھینچنا چاہتی ہے، مگر وہ نہیں کھنچتی، بلکہ زبردستی سے گورنمنٹ کو پیچھے کھینچ لائی ہے۔
یہ ایک نیچر کا قاعدہ ہے کہ جیسا مجموعہ قوم کی چال چلن کا ہوتا ہے یقینی اسی کے موافق اس کے قانون اور اسی کے مناسب حال گورنمنٹ ہوتی ہے۔ جس طرح کہ پانی خود اپنی پنسال میں آ جاتا ہے، اسی طرح عمدہ رعایا پر عمدہ حکومت ہوتی ہے اور جاہل و خراب وناتربیت یافتہ رعایا پر ویسی ہی اکھڑ حکومت کرنی پڑتی ہے۔ تمام تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ کسی ملک کی خوبی و عمدگی اور قدر و منزلت بہ نسبت وہاں کی گورنمنٹ کے عمدہ ہونے کے زیادہ تر اس ملک کی رعایا کے چال چلن، اخلاق و عادت، تہذیب و شائستگی پر منحصر ہے، کیونکہ قوم شخصی حالتوں کا مجموعہ ہے اور ایک قوم کی تہذیب در حقیقت ان مرد و عورت و بچوّں کی شخصی ترقی ہے، جن سے وہ قوم بنی ہے۔
قومی ترقی مجموعہ ہے شخصی محنت، شخصی عزت، شخصی ایمانداری، شخصی ہمدردی کا۔ اسی طرح قومی تنزل مجموعہ ہے شخصی سستی، شخصی بے عزتی، شخصی بے ایمانی، شخصی خود غرضی کا اور شخصی برائیوں کا۔ نا تہذیبی و بد چلنی جو اخلاقی و تمدنی یا باہمی معاشرت کی بدیوں میں شمار ہوتی ہے، در حقیقت وہ خود اسی شخص کی آوارہ زندگی کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ بیرونی کوشش سے ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالیں اور نیست و نابود کردیں تو یہ برائیاں کسی اور نئی صورت میں اس سے بھی زیادہ زور شور سے پیدا ہو جاویں گی۔ جب تک شخصی زندگی اور شخصی چال چلن کی حالتوں کو ترقی نہ کی جاوے۔
اے میرے عزیز ہم وطنو! اگر یہ رائے صحیح ہے تو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ قوم کی سچی ہمدردی اور سچی خیر خواہی کرو۔ غور کرو کہ تمہاری قوم کی شخصی زندگی اور شخصی چال چلن کس طرح پر عمدہ ہو، تاکہ تم بھی ایک معزز قوم ہو۔ کیا جو طریقہ تعلیم و تربیت کا، بات بات چیت کا، وضع و لباس کا، سیر سپاٹے کا، شغل و اشغال کا، تمہاری اولاد کے لیے، اس سے ان کے شخصی چال چلن، ااخلاق و عادات، نیکی و سچائی میں ترقی ہو سکتی ہے؟ حاشا و کلّا۔ جب کہ ہر شخص اور کل قوم خود اپنی اندرونی حالتوں سے آپ اپنی اصلاح کر سکتی ہے تو اس بات کی امید پر بیٹھے رہنا کہ بیرونی زور انسان کی یا قوم کی اصلاح و ترقی کرے کس قدر افسوس بلکہ نا دانی کی بات ہے۔
وہ شخص در حقیقت غلام نہیں ہے جس کو ایک خدا ناترس نے جو اس کا ظالم آقا کہلایا جاتا ہے خرید لیا ہے۔ یا ایک ظالم اور خود مختار بادشاہ یا گورنمنٹ کی رعیت ہے بلکہ در حقیقت وہ شخص اصلی غلام ہے جو بد اخلاقی، خود غرضی، جہالت اور شرارت کا مطیع اور اپنی خود غرضی کی غلامی میں مبتلا اور قومی ہمدردی سے بے پرواہ ہے۔ وہ قومیں جو اس طرح دل میں غلام ہیں وہ بیرونی زوروں سے، یعنی عمدہ گورنمنٹ یا عمدہ قومی انتظام سے آزاد نہیں ہو سکتیں جب تک کہ غلامی کی یہ دلی حالت دور نہ ہو۔ اصل یہ ہے کہ جب تک انسانوں میں یہ خیال ہے کہ ہماری اصلاح و ترقی گورنمنٹ پر یا قوم کے عمدہ انتظام پر منحصر ہے اس وقت تک کوئی مستقل اور برتاؤ میں آنے کے قابل نتیجہ اصلاح و ترقی کا قوم میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ گو کیسی ہی عمدہ تبدیلیاں گورنمنٹ یاانتظام میں کی جاویں، وہ تبدیلیاں فانوس خیال سے کچھ زیادہ رتبہ نہیں رکھتیں جس میں طرح طرح کی تصویریں پھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، مگر جب دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔
مستقل اور مضبوط آزادی، سچی عزت، اصلی ترقی، شخصی چال چلن کے عمدہ ہونے پر منحصر ہے اور وہی شخصی چال چلن معاشرت و تمدن کا محافظ اور وہی شخصی چال چلن قومی ترقی کا بڑا ضامن ہے۔ جان اسٹیورٹ مل جو اسی زمانے میں ایک بہت بڑا حکیم گذرا ہے، اس کا قول ہے کہ ظالم اور خود مختار حکومت بھی زیادہ خراب نتیجے پیدا نہیں کر سکتی اگر اس کی رعایا میں شخصی اصلاح اور شخصی ترقی موجود ہے اور جو چیز کہ شخصی اصلاح و شخصی ترقی کو دبا دیتی ہے در حقیقت وہی شے اس کے لیے ظالم و خود مختار گورنمنٹ ہے۔ پھر اس شے کو جس نام سے چاہو پکارو۔ اس مقولے پر میں اس قدر اور زیادہ کرتا ہوں کہ جہاں شخصی اصلاح اور شخصی ترقی مٹ گئی ہے یا دب گئی ہے وہاں کیسی ہی آزاد اور عمدہ گورنمنٹ کیوں نہ قائم کی جاوے وہ کچھ بھی عمدہ نتیجے پیدا نہیں کر سکتی اور ا س اپنے مقولے کی تصدیق کو ہندوستان کی اور خصوصا ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت کی مثال پیش کرتا ہوں۔ اے مسلمان بھائیو! کیا تمہاری یہی حالت نہیں ہے؟ تم سے اس عمدہ گورنمنٹ سے جو تم پر حکومت کر رہی ہے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟ تمہاری آزادی کے محفوظ رہنے کا تم کو کیا نتیجہ حاصل ہو ا ہے؟ ہیچ، ہیچ، ہیچ! اس کا سبب یہی ہے کہ تم میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ نہیں ہے۔
انسان کی قومی ترقی کی نسبت ہم لوگوں کے یہ خیال ہیں کہ کوئی خضر ملے، گورنمنٹ فیاض ہو اور ہمارے سب کام کر دے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر چیز ہمارے لیے کی جاوے اور ہم خود نہ کریں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس کو ہادی اور رہنما بنایا جاوے تو تمام قوم کی دلی آزادی کو برباد کردے اور آدمیوں کو انسان پرست بنا دے۔ حقیقت میں ایسا ہونا قوت کی پرستش ہے اور اس کے نتائج انسان کو ایسا ہی حقیر بنا دیتے ہیں، جیسے کہ صرف دولت کی پرستش سے انسان حقیر و ذلیل ہو جاتا ہے۔ کیا لالہ اشرفی مل جو ہر روز لچھمی کی پوجا کرتے ہیں اور بے انتہا دولت رکھتے ہیں، انسانوں میں کچھ قدر و منزلت کے لائق گنے جاتے ہیں؟
بڑا سچا مسئلہ اور نہایت مضبوط جس سے دنیا کی معزز قوموں نے عزت پائی ہے وہ اپنی مدد آپ کرنا ہے۔ جس وقت لوگ اس کو اچھی طرح سمجھیں گے اور کام میں لاویں گے تو پھر خضر کو ڈھونڈنا بھول جاویں گے۔ اوروں پر بھروسے اور اپنی مدد آپ یہ دونوں اصول ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں۔ پچھلا انسان کی بدیوں کو برباد کرتا ہے اور پہلا خود انسان کو۔ قومی انتظام یا عمدہ قوانین کے اجراء کی خواہش یہ بھی ایک قدیمی غلط خیال ہے۔ سچا اصول وہ ہے جو ولیم ڈراگن نے ڈبلن کی نمائش گاہ دست کاری میں کہا تھا جو ایک بڑ ا خیر خواہ آئر لینڈ کا تھا۔ اس نے کہا کہ،
’’جس وقت میں آزادی کا لفظ سنتا ہوں، اسی وقت مجھ کو میرا ملک اور میرے شہر کے باشندے یاد آتے ہیں۔ ہم اپنی آزادی کے لیے بہت سی باتیں سنتے آئے ہیں، مگر میرے دل میں بہت بڑا مضمون یقین ہے کہ ہماری محنت، ہماری آزادی ہمارے اوپر منحصر ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ اگر ہم محنت کیے جاویں اور اپنی قوتوں کو ٹھیک طور استعمال کریں تو اس سے زیادہ ہم کو کوئی موقع یا آئندہ کی قوی توقع اپنی بہتری کے لیے نہیں ہے۔ استقلال اور محنت کامیابی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اگر ہم ایک دلی ولولے اور محنت سے کام کئے جائیں گے تو مجھے پورا یقین ہے کہ تھوڑے زمانے میں ہماری حالت بھی ایک عمدہ قوم کی مانند آرام و خوشی و آزادی کی ہو جاوے گی۔’‘
انسان کی اگلی پشتوں کے حالات پر خیال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی موجودہ حالت انسانوں کے نسل در نسل کے کاموں سے حاصل ہوئی ہے۔ محنتی اور مستقل مزاج محنت کرنے والوں، زمین کے جوتنے والوں، کانوں کے کھودنے والوں، نئی نئی باتوں کے ایجاد کرنے والوں، مخفی باتوں کو ڈھونڈ کر نکالنے والوں، آلات جر ثقیل سے کام لینے والوں اور ہر قسم کے پیشہ کرنے والوں، ہنر مندوں، شاعروں، حکیموں، فیلسوفوں، ملکی منتظموں نے انسان کو موجودہ ترقی کی حالت پر پہنچانے میں بڑی مدد دی ہے۔ ایک نسل نے دوسری نسل کی محنت پر عمار ت بنائی ہے اور اس کو ایک اعلی درجے پر پہونچایا ہے۔ ان عمدہ کاریگروں سے جو تہذیب و شائستگی کی عمارت کے معیار ہیں، لگاتار ایک دوسرے کے بعد ہونے سے محنت اور علم و ہنر میں جو ایک بے ترتیبی کی حالت میں تھی، ایک ترتیب پیدا ہوئی ہے۔
رفتہ رفتہ نیچر کی گردش نے موجودہ نسل کو اس زر خیز اور بے بہا جائداد کا وارث کیا ہے جو ہمارے پرکھوں کی ہوشیار ی اور محنت سے مہیا ہوئی تھی اور وہ جائداد ہم کو اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ ہم صرف مثل مار سر گنج اس کی حفاظت ہی کیا کریں، بلکہ ہم کو اس لیے دی گئی ہے کہ اس کو ترقی دیں اور ترقی یافتہ حالت میں آئندہ نسلوں کے لئے چھوڑ جاویں، مگر افسوس صد ہزار افسوس کہ ہماری قوم نے ان پرکھوں کی چھوڑ ی ہوئی جائداد کو بھی گرا دیا۔
انگریزوں کو جو دنیا کے دور میں اس قدر ترقی ہوئی، اس کا سبب صرف یہی ہے کہ ہمیشہ ان کی قوم میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ رہا ہے اور اس قوم کی شخصی محنت اس پر گواہ عادل ہے۔ یہی مسئلہ اپنی مدد آپ کرنے کا انگریزوں کی قوم کی طاقت کا سچا پیمانہ رہا ہے۔
انگریزوں میں اگرچہ بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو تمام لوگوں سے اعلیٰ درجے کے اور زیادہ مشہور تھے اور جن کی تمام لوگ عزت بھی کرتے تھے، لیکن کم درجے کے اور غیر مشہور آدمیوں کے گروہوں میں سے بھی اس قوم کی بڑ ی ترقی ہوئی ہے۔ گو کسی لڑائی اور میدان کارزار کی فہرستوں اور تاریخوں میں صرف بڑے بڑے جنرلوں اور سپہ سالاروں کے نام لکھے گئے ہوں، لیکن وہ فتوحات ان کو زیادہ تر انہیں محنتی لوگوں کی شجاعت اور بہادری کے سبب ہوئی ہے۔ عام لوگ ہی تمام زمانے میں سب سے زیادہ کام کرنے والے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے شخص ہیں جن کی زندگی کا حال کسی نے نہیں لکھا، لیکن تہذیب و شائستگی اور ترقی پر ان کا بھی ایسا ہی اثر ہوا ہے جیسا کہ ان خوش نصیب مشہور نامور آدمیوں کا ہوا ہے جن کی زندگی کے حالات مؤرخوں نے اپنی تاریخوں میں لکھے ہیں۔
ایک نہایت عاجز و مسکین غریب آدمی جو اپنے ساتھیوں کو محنت اور پرہیزگاری اور بے لگاؤ ایمانداری کی نظیر دکھاتا ہے، اس شخص کا اس کے زمانے میں اور آئندہ زمانے میں اس کے ملک، اس کی قوم کی بھلائی پر بہت بڑا اثر پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی زندگی کا طریقہ اور چال چلن گو معلوم نہیں ہوتا، مگر اور شخصوں کی زندگی میں خفیہ خفیہ پھیل جاتا ہے اور آئندہ کی نسل کے لئے ایک عمدہ نظیر بن جاتا ہے۔
ہر روز کے تجربے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شخصی ہی چال چلن میں یہ قوت ہے کہ دوسرے کی زندگی اور برتاؤ اور چال چلن پر نہایت قوی اثر پیدا کرتا ہے اور حقیقت میں یہی ایک نہایت عمدہ عملی تعلیم ہے اور جب ہم اس عملی تعلیم کا علمی تعلیم سے مقابلہ کریں تو مکتب و مدرسے اور مدرسۃ العلوم کی تعلیم اسی عملی تعلیم کی ابتدائی تعلیم معلوم ہوتی ہے۔ زندگی کے علم کا یعنی زندگی کے برتاؤ کے علم کا جس کو انگریزی میں ’’لیف ایجوکیشن’‘ کہتے ہیں، انسان پر، قوم پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ مکتب و مدرسہ و مدرسۃ العلوم کا علم طاق میں یا صندوق میں یا الماری میں یا کسی بڑے کتب خانے میں رکھا ہوا ہوتا ہے، مگر زندگی کے برتاؤ کا علم ہر وقت دوست سے ملنے میں، گھر کے رہنے سہنے میں، شہر کی گلیوں میں پھرنے میں، صرافہ کی دوکان کرنے میں، ہل جوتنے میں، کپڑا بننے کے کارخانے میں، کلوں سے کام کرنے کے کارخانہ میں اپنے ساتھ ہوتا ہے او ر پھر بے سکھائے اور بے شاگرد کیے، لوگوں میں صرف اس کے برتاؤ سے پھیلتا جاتا ہے۔
یہ پچھلا علم وہ علم ہے، جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ اسی پچھلے علم سے عمل، چال چلن، تعلیم نفسی، نفس کشی، شخصی خوبی، قومی مضبوطی، قومی عزت حاصل ہوتی ہے۔ یہی پچھلا علم وہ علم ہے کہ جو انسان کو اپنے فرائض ادا کرنے اور دوسروں کے حقوق محفوظ رکھنے اور زندگی کے کاروبار کرنے اور اپنی عاقبت کے سنوارنے کے لائق بنا دیتا ہے۔ اس تعلیم کو آدمی صرف کتابوں سے نہیں سیکھ سکتا اور نہ یہ تعلیم کسی درجے کی علمی تحصیل سے ہوتی ہے۔ لارڈ بیکن کا نہایت علم سے باہر اور علم سے بر تر ہے اور مشاہدہ آدمی کی زندگی کو درست اور اس کے علم کو باعمل، یعنی اس کے برتاؤ میں کردیتا ہے۔ علم کے بہ نسبت عمل اور سوانح عمری کی بہ نسبت عمدہ چال چلن آدمی کو زیادہ تر معزز اور قابل ادب بناتا ہے۔ کیا یہی وجہ ہے جو مدرسۃ العلوم مسلماناں کے بانیوں نے یہ تجویز کی ہے کہ مسلمانوں کے لڑکے گھروں سے اور بد صحبتوں سے علیحدہ مدرسۃ العلوم میں عالموں، اشرافوں اور تربیت یافتہ لوگوں کی صحبت میں رکھے جاویں۔