اپنے زخموں کو دھو رہا ہے کوئی

اپنے زخموں کو دھو رہا ہے کوئی
خون ہی خون ہو رہا ہے کوئی


قصۂ غم سنجو رہا ہے کوئی
موتیوں کو پرو رہا ہے کوئی


میری آنکھوں میں پھر سے آنسو ہیں
آج پھر دل میں رو رہا ہے کوئی


بات ہاں نا کی تھی کسی کے لئے
عمر کا بوجھ ڈھو رہا ہے کوئی


گلشن عشق کا پتہ دے کر
خوشبوؤں میں ڈبو رہا ہے کوئی


خواب چھونے لگے ہیں آنکھوں کو
حسرتوں کو بھگو رہا ہے کوئی


چاند کے ساتھ اک ستارا ظفرؔ
جیسے بانہوں میں سو رہا ہے کوئی