اپنے نائی کا ہنر یاد آیا
اپنے نائی کا ہنر یاد آیا
ہم نے منڈوایا تھا سر یاد آیا
ریل میں لے رہی تھی خراٹے
اس کے ہم راہ سفر یاد آیا
جس کو کھا کے ہوئے تھے ہم بیمار
وہ ہی بھیجا وہ جگر یاد آیا
رات کنیا گلے لگائی تھی
صبح دارو کا اثر یاد آیا
پریم کے وقت غصہ بیوی کا
بھولنا چاہا مگر یاد آیا
جب فسادوں کی کوئی آئی خبر
اپنا جلتا ہوا گھر یاد آیا
رازؔ نے کی جو فکر غالبؔ کی
اس کے شعروں کا اثر یاد آیا