اپنے کنبے کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
اپنے کنبے کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
ہم سے ہر روز کی ہجرت نہیں دیکھی جاتی
دل نے اس طور سے فرقت کے مزے لوٹے ہیں
تیری آنکھوں میں محبت نہیں دیکھی جاتی
تو بھی سو لے کہ ذرا تجھ کو سکوں ہو جائے
شب فرقت تیری وحشت نہیں دیکھی جاتی
پیاس وہ سب کی بجھا کر بھی تہی دست رہا
ہم سے دریا کی یہ غربت نہیں دیکھی جاتی
ہاتھ اٹھاتے ہی خدا سے تجھے مانگا جائے
عشق میں ایسی تجارت نہیں دیکھی جاتی
تجھ سا بننے کی تمنا میں یہ سرگرداں ہے
چاند تیری یہ مشقت نہیں دیکھی جاتی
اپنے اجداد کی قبروں سے جدا ہو کہ ندیم
جو کمائی ہے وہ دولت نہیں دیکھی جاتی