اپنے حالات کا اسیر ہوں میں
اپنے حالات کا اسیر ہوں میں
درد کی دولت کثیر ہوں میں
جمع کر کر کے اپنی محرومی
بن گیا کس قدر امیر ہوں میں
میرے ظاہر کو دیکھنے والے
ایک باطن غنی فقیر ہوں میں
آزما لے تو جس طرح چاہے
ہوں تو کم مایہ با ضمیر ہوں میں
تو ہے انوار بیکراں تو بتا
کس کا اک پارۂ منیر ہوں میں
یہ سوال اب ترے بچاؤ کا ہے
تیری کھینچی اگر لکیر ہوں میں
کوئی حرف طلب نہ حرف سوال
ایسا اک بوریا پذیر ہوں میں
تیری کرنوں نے تربیت کی ہے
مانا اک ذرۂ حقیر ہوں میں
ختم مجھ پر ہے انفراد مرا
آپ اپنی ہی اک نظیر ہوں میں
ایک تہذیب کے صحیفے کا
شاید اب حصۂ اخیر ہوں میں
طرزیؔ کرتا ہوں پھر رفو دامن
یعنی اک صید ترک و گیر ہوں میں