اپنے حال دل پہ خود ہی مسکرا سکتا ہوں میں

اپنے حال دل پہ خود ہی مسکرا سکتا ہوں میں
کب کسی کے رحم کا احساں اٹھا سکتا ہوں میں


آشیاں کو پھونک سکتی ہے اگرچہ بجلیاں
شاخ گل پر بار بار اس کو بنا سکتا ہوں میں


داستان غم کو کہہ سکتا ہوں صرف اک آہ میں
اور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتا ہوں میں


تم اگرچہ بخش سکتے ہو مجھے تنہائیاں
اپنی تنہائی کو بھی محفل بنا سکتا ہوں میں


بے رخی سے توڑ سکتے ہو دل نازک کو تم
اور شکستہ ساز دل پر گنگنا سکتا ہوں میں


ہر قدم پر زیست نے آ کر جھنجھوڑا ہے مجھے
زندگی سے کیا کبھی آنکھیں چرا سکتا ہوں میں


اتنی دیکھی ہیں بہاریں اتنی دیکھی ہے خزاں
اب تو ان کا فرق بھی دل سے مٹا سکتا ہوں میں


تم کو یہ دعویٰ کہ تم ہر انجمن کی جان ہو
زعم ہے مجھ کو کہ ہر محفل پہ چھا سکتا ہو میں


وہ نگاہ لطف گر تجھ کو میسر ہو حبیبؔ
زندگی کو اک نئی منزل پہ لا سکتا ہوں میں