اپنے ارباب زر نہیں بدلے
اپنے ارباب زر نہیں بدلے
ہیں بڑے کم نظر نہیں بدلے
چھوڑ دی شاخ گل ہوئی مدت
طور برق و شرر نہیں بدلے
گردشوں نے جہان کو بدلا
شیخ والا گہر نہیں بدلے
انقلاب آ کے ہو گئے رخصت
اپنے شام و سحر نہیں بدلے
ہم کو دنیا کچل کے رکھ دے گی
ہم نے رہبر اگر نہیں بدلے
گھولا جاتا ہے زہر امرت میں
دوستوں کے ہنر نہیں بدلے
ساری دنیا بدل گئی لیکن
ہم ہی اپنی ڈگر نہیں بدلے