انور شعورؔ دن میں کہیں رات میں کہیں

انور شعورؔ دن میں کہیں رات میں کہیں
رہتا ہے خوار شہر خرابات میں کہیں


آئے ہزار بار بلانے کے بعد اور
گم ہو گئے وہ اپنے خیالات میں کہیں


ممکن ہے بادہ خانے گئے ہوں جناب شیخ
گھر سے نکل گئے ہیں وہ برسات میں کہیں


ہم منتظر ہیں اور بھلائے ہوئے ہیں وہ
کیا گفتگو ہوئی تھی ملاقات میں کہیں


ملتے ہیں روز بار میں ہم عصر تا عشا
جاتے نہیں وہاں سے ان اوقات میں کہیں


گو سخت ناگوار ہے گھر بیٹھنا ہمیں
کیا جائیں اس خرابٔی حالات میں کہیں