اینگلا مرکل اور ولادی میر پیوٹن
جرمنی کی سابقہ چانسلر انجلا مرکل اور موجودہ روسی صدر ولادمیر پیوٹن کے تعلقات میں کتا کہاں سے آ گیا؟ دلچسب کہانی پڑھیے۔
یہ کہانی ہے دو ایسے حکمرانوں کی، جن کے اقتدار کا سورج یورپ کی اکیسویں صدی کی فضاؤں پر سب سے طویل چمکتا عرصہ تک رہا۔ اینگلا مرکل جو سولہ سال جرمنی کی چانسلر رہنے کے بعد اب اقتدار کو خیر باد کہہ رہی ہیں اور ولادیمیر پیوٹن جو پچھلی دو دہائیوں سے روس کے کرتا دھرتا ہیں اور ان کے ہاتھ میں ابھی بھی پوری طرح روس کی لگامیں ہیں۔ اپنے اپنے ممالک میں بے حد مقبول دونوں حکمران جب جب آپس میں ملے ،خوشگوار لمحات بہت ہی کم دیکھنے کو ملے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اینگلا مرکل کا پیوٹن سے کھچے کھچے رہنا تھا۔ اس میں کچھ تو پیوٹن کی پر اسرار شخصیت کا ہاتھ تھا جو پانچ سال جرمنی کے اس مشرقی حصے میں بطور جاسوس رہے جہان اینگلا مرکل پلی بڑی تھیں، کچھ روس کے ساتھ یورپی ممالک کے تعلقات کی نوعیت تھی جو پیوٹن کے مبینہ جرائم پر ان سے برہم تھے اور سونے پر سہاگا ایک کتا بھی ان کے تعلقات کے درمیان آگیا۔ ایک ایسا کتا جس سے اینگلا مرکل خوف کھاتی تھیں۔ اس کتے کی کہانی بھی ہم آپ کو سنائیں گے لیکن پہلے دونوں حکمرانوں کی زندگی پر نظر دوڑا لیتے ہیں۔
اینگلا مرکل مغربی جرمنی میں انیس سو چوّن میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اشتراکیت پسند تھے۔ لہٰذا وہ ان کو لے کر مشرقی جرمنی منتقل ہوگئے جہاں سوویت یونین سے متاثرہ اشتراکی نظام قائم تھا۔ جرمنی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دو حصوں میں تقسیم تھا۔ مغرب میں جہاں امریکہ کے زیر سایہ سرمایہ دارانہ نظام پنپتا تھا اور مشرقی جرمنی جہاں اشتراکی نظام حکومت نے اپنے پنجے گاڑھ رکھے تھے۔ ان دونوں جرمنیوں کو دیوار برلن تقسیم کرتی تھی۔ جرمنی اس وقت اس تقسیم کی کلاسیکل تصویر پیش کرتا تھا جو اس وقت یو ایس ایس آر اور نیٹو کی سرد جنگ سے دنیا کی بنی تھی۔ یہ دیوار 1989 میں سوویت یونین کے انتقال کے ساتھ ہی ڈھا دی گئی۔ اس دیوار کے گرتے ہی جرمنی متحد ہو گیا۔ اور اینگلا مرکل جو اس وقت کوانٹم فزکس میں ڈاکٹریٹ کر چکی تھیں، نے سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ انیس سو نوے میں جرمن پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہو گئیں۔ سن دو ہزار میں وہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی سربراہ بن گئیں۔ حالانکہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین ایک رجعت پسند جماعت تھی اور اس میں عیسائیت کے کیتھولک دھڑے میں مردوں کی اکثریت تھی۔ لیکن اینگلا مرکل اپنی ذہانت اور حکمت سے پروٹسٹنٹ اور خاتون ہوتے ہوئے بھی سربراہ منتخب ہوگئیں۔ دو ہزار پانچ میں انہوں نے جرمنی کے چانسلر کے عہدے کے لیے انتخاب لڑا اور جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر منتخب ہو گئیں۔ تب سے لے کر اب تک ہر چار سال کے بعد وہ چانسلر بنتی آ رہی ہیں۔ وہ نہ صرف جرمنی کی بلکہ یورپ کی ایک مقبول حکمران سمجھی جاتی ہیں۔ جنہوں نے یورو ڈیٹ کرائیسز اور جنگ سے ستائے پناہ گزینوں کو یورپ میں جگہ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب بھی دو ہزار اکیس میں ایسا نہیں ہوا کہ وہ غیر مقبول ہو کر انتخاب ہاری ہیں۔ بلکہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر دو ہزار اکیس کے انتخابات کے بعد اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اتوار کو ہونے والے جرمنی کے انتخابات میں ان کی کرسچن ڈیموکریٹک یونین اکثریت حاصل نہیں کر سکی لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر اینگلا مرکل چانسلر شپ کے لیے کھڑی ہوتیں تو نتائج یقیناً مختلف ہوتے۔
آئیے اب روسی صدر کی زندگی سے اہم جھلکیاں دیکھتے ہیں۔ ولادیمیر پیوٹن انیس سو باون میں روسی صوبے لینن گراڈ یا سینٹ پیٹرز برگ میں پیدا ہوئے۔ پیوٹن بتاتے ہیں کہ ان کا بچپن محلے کے لڑکوں سے مار کھاتے گزرا۔ لیکن پھر انہوں نے جوڈو کی پریکٹس کی اور پھر انہی لڑکوں کی دھلائی کی جو ان کو مارا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے بچپن سے ہی یہ سبق سیکھ لیا تھا کہ یہاں عزت صرف طاقت ور کی ہوتی ہے۔ اگر آپ کبھی ایسے حالات میں آ جائیں جہاں لڑائی کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو تو پہلا مکا آپ ماریں۔ لڑائی جھگڑوں سے سبق لیتے اس پیوٹن نے اپنے لڑکپن میں ایک مو وی دیکھی۔ اس فلم میں ایک جاسوس کو دکھایا گیا تھا جس کے رحم و کرم پر لاکھوں لوگوں کی زندگیاں ہوتیں ہیں۔ یہ جاسوس انتہائی ہوشیاری سے اپنے ملک کے اہداف حاصل کرتا ہے اور اپنی قوم کا ہیرو بن جاتا ہے۔ اس فلم نے پیوٹن کے ذہن پر گہرے نقش چھوڑے۔ گو کہ پیوٹن نے لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی لیکن انیس سو پچھتر میں وہ روس کی جاسوسی کرنے والے ادارے کے جی بی میں بھرتی ہو گئے۔ انیس سو پچاسی میں ان کی تعیناتی مشرقی جرمنی میں ہوئی جو سرد جنگ کی وجہ سے جاسوسوں کا گڑھ تھا۔ وہ مشرقی جرمنی میں ٹرانسلیٹر کے روپ میں آئے اور اپنی ڈیوٹی کے دوران بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ وہ کے جی بی کے لیے لوگوں کو بھرتی کرتے، نیٹو ممالک کی ٹیکنالوجی اور اہم راز چراتے اور انتہائی ہوشیاری سے دشمن کے ساتھ ڈیل کرتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنی مشرقی جرمنی کی ڈیوٹی میں پیوٹن کا کوئی زیادہ کردار نہیں تھا۔ وہ صرف خفیہ خطوط کو لکھنے اور موصول کرنے کا کام کیا کرتا تھا۔ اپنی مشرقی جرمنی میں ڈیوٹی کے بارے میں پیوٹن نے خود کبھی کچھ نہیں بتایا۔ اسی وجہ سے زیادہ تر صرف چہ میگوئیاں اور اندازے ہیں۔ بہر حال، حقیقت کچھ بھی تھی، ہوا کچھ یوں کہ انیس سو ننانوےتک کے جی بی کا یہ سیکرٹ ایجنٹ اس وقت کے روسی صدر بورس ایئلسن کا وزیر اعظم اور پھر خود صدر بن گیا۔ اس پیوٹن نے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنے اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے بہت سے پاپڑ بیلے۔ جس میں چیچنیا کے مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان کا قتل عام کرنا بھی شامل ہے۔ بحر حال، پیوٹن اب بھی اپنی عوام میں مقبول ہیں یا نہیں، اس کا اندازہ کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ کونکہ روس میں سخت سنسرشپ ہے۔ بس ہمیں یہ پتہ ہے کہ پیوٹن اب بھی روس کے صدر ہیں۔ ان پر کم از کم گیارہ مخالفین کو قتل کرنے یا قتل کرنے کی کوشش کرنے کے الزامات ہیں۔ جن میں پچھلے سال ان کے بد ترین ناقد الیگزینڈر نویلنی کو زہر دینے کا معاملہ سر فہرست ہے۔ یورپ کے ممالک ان کے ان جرائم کے علاوہ دو ہزار چودہ میں یوکرائن کے شہر کریمیا پر قبضہ کرنے، شام میں بشار الاسد کی فوجوں کی مدد کرنے وغیرہ کی وجہ سے ان سے سخت برہم ہیں۔ وہ ولادیمیر پیوٹن کے خلاف سخت کاروائی چاہتے ہیں ۔ یورپ کے بڑے بڑے ممالک اپنی گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس پر انحصار کرتے ہیں۔
اپنی تمام تر نا پسندیدگی کے باوجود اینگلا مرکل کو بھی اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے بار بار پیوٹن کو ملنا پڑتا تھا۔ ان کی چانسلر شپ کی آخری ملاقات میں بھی انہیں پیوٹن سے ایک ایسی گیس پائپ لائن کے متعلق بات کرنا تھی، جس نے جرمنی کو براہ راست بنا کسی دوسرے ملک کی مداخلت کے گیس فراہم کرنا ہے۔
اب آئیے کتے کی اس کہانی کی طرف جس نے دونوں حکمرانوں کے درمیان ٹوئسٹ پیدا کر رکھا ہے۔ اینگلا مرکل کتوں سے کتراتی ہیں۔ اس کی وجہ نیویارک ٹائمز کے مطابق انیس سو پچانوے میں ایک کتے کا ان پر حملہ کرنا ہے۔ دو ہزار سات میں ان کی اور پیوٹن کی روس میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں روسی صدر پیوٹن، اپنا پالتو کتا "کونی" ساتھ لے آئے۔ اینگلا مرکل اس کتے کو دیکھتے ہی بے چین ہو گئیں۔ پیوٹن نے ان کی اس بے چینی کے باوجود اپنے کونی کو ان کے قریب جانے دیا ۔ کتا جرمن چانسلر کے قریب جا کر ان کے کپڑتے سونگنے لگا۔ جس پر جرمن چانسلر خاصی پریشان ہو گئیں۔ ملاقات کے بعد اینگلا مرکل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
"میں جانتی ہوں اس (پیوٹن) نے ایسا کیوں کیا؟ وہ صرف یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ مرد ہے۔ وہ اپنی کمزوری سے خوف زدہ تھا۔ روس کے پاس کچھ بھی تو نہیں۔ نہ ہی کامیاب سیاست اور نہ ہی معیشت۔"
اپنی اس ملاقات کے نو سال بعد، روسی صدر پیوٹن نے ایک جرمن اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ہر گز مقصد کتے کو لا کر جرمن چانسلر کو تنگ یا پریشان کرنا نہیں تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ اینگلا کتے کی وجہ سے بے چین ہیں تو میں نے ان سے معذرت کی۔
خیر بات کچھ بھی تھی۔ یہ کہانی آج تک اخبارات کی زینت بنتی ہے اور لگتا کچھ ایسے ہی ہے کہ تاریخ کے صفحات میں امر ہو چکی ہے۔ جرمن چانسلر جا رہی ہیں اور روس کے صدر بھی اگلے کچھ سالوں میں اقتدار چھوڑ دیں گے۔ لیکن یہ کہانی کب تک لوگوں کی زبان پر رہتی ہے اور وہ اس سے کیا نتائج اخذ کرتے ہیں، ہم کچھ کہ نہیں سکتے۔