اندھیری شب سے ایک لا حاصل
اندھیری شب کے شرمیلے معطر کان میں اس نے کہا وہ شخص
دور افتادہ لیکن میرے دل کی طرح روشن ہے
جو میرے پاؤں کے تلوے ہتھیلی کے گلابی گال میں
کانٹا سا چبھتا ہے
جو میرے جسم کی کھیتی پہ بارش کا چھلاوا ہے
وہ جس کی آنکھ کی قاتل
ہوس اک منتظر لیکن نہ ظاہر ہونے والے پھول کی مانند
بے چینی میں رکھتی ہے مجھے وہ
آنے والا ہے
مگر وہ شخص اس شب بھی نہیں آیا
بھلا ٹوٹی کلائی سے
وہ سارے خواب سب وعدے ملاقاتوں کے پیمانے
کہاں سنبھلیں
بھلا بے نور آنکھوں میں وہ صورت
جھم جھماتی تند جوش خون سے گرمی لب تک تمتماتی
کس طرح رکتی
اندھیری رات نے
دیکھا نہ کچھ سننا ہی چاہا اس کے گوش نازک اور چشم سیہ معصوم ہوتے ہیں