اندھا
میرے احساسات کی گہرائیوں میں ہے نہاں
بے توجہ قبر کی مانند اک اندھا کنواں
اس کی تہ میں کوئی قطرہ آب شیریں کا نہیں
فیض اس سے روح تشنہ کو کبھی پہنچا نہیں
گاہے گاہے گونجتی ہے اس میں اپنی ہی صدا
جس سے خود مجھ پر ہوا کرتا ہے طاری خوف سا
حوصلوں کو نیم جاں کرتی ہے ہے جس بازگشت
دور تر ہوتا چلا جاتا ہے امکانوں کا دشت