اندیشہ
صندلیں جسم کی خوشبو سے مہکتی ہوئی رات
مجھ سے کہتی ہے یہیں آج بسیرا کر لے
گر تری نیند اجالوں کی پرستار نہیں
اپنے احساس پہ زلفوں کا اندھیرا کر لے
میں کہ دن بھر کی چکا چوند سے اکتایا ہوا
کسی غنچے کی طرح دھوپ میں کمہلایا ہوا
اک نئی چھاؤں میں سستانے کو آ بیٹھا ہوں
گردش دہر کے آلام سے گھبرایا ہوا
سوچتا ہوں کہ یہیں آج بسیرا کر لوں
صبح کے ساتھ کڑی دھوپ کھڑی ہے سر پر
کیوں نہ اس ابر کو کچھ اور گھنیرا کر لوں
جانے یہ رات اکیلے میں کٹے یا نہ کٹے
کیوں نہ کچھ دیر شبستاں میں اندھیرا کر لوں
لیکن اس رات کی یہ بات نہ بڑھ جائے کہیں
تجھ سے مل کر یہ مرے دل کو لگا ہے دھڑکا
راکھ ہو جاؤں گا میں صبح سے پہلے پہلے
کھل کے سینے میں جو احساس کا شعلہ بھڑکا