اندیشۂ وصال کی ایک نظم

شفق کے پھول تھالی میں سجائے سانولی آئی
چراغوں سے لویں کھینچیں دریچوں میں نمی آئی
میں سمجھا اس سے ملنے کی گھڑی آئی


ہوا جاروب کش تھی آسماں آثار تنکوں کی
جسے اپنی سہولت کے لیے دنیا... یہ تن آسان دنیا... اک مروت میں
ہجوم خلق کہتی ہے
مری آنکھیں تہی گلدان کی صورت منڈیروں پر
گلی سے اٹھنے والی گرد کو تتلی بتاتی ہیں
یہ منظر منجمد ہو کر سفر آغاز کرتا ہے
لہو کی برق رفتاری طنابیں کھینچ لیتی ہے
یہ کیسی شام شہزادی
شفق کے پھول تھالی میں سجائے زینۂ شب سے اتر آئی
میں سمجھا اس سے ملنے کی گھڑی آئی
سلاخوں سے لہو پھوٹا لہو میں روشنی آئی