انار کلی

نام اس کا سلیم تھا مگر اس کے یار دوست اسے شہزادہ سلیم کہتے تھے۔ غالباً اس لیے کہ اس کے خدو خال مغلئی تھے۔ خوبصورت تھا۔ چال ڈھال سے رعونت ٹپکتی تھی۔ اس کا باپ پی ڈبلیو ڈی کے دفتر میں ملازم تھا۔ تنخواہ زیادہ سے زیادہ سو روپے ہوگی مگر بڑے ٹھاٹ سے رہتا۔ ظاہر ہے کہ رشوت کھاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سلیم اچھے سے اچھا کپڑا پہنتا، جیب خرچ بھی اس کو کافی ملتا اس لیے کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا تھا۔


جب کالج میں تھا تو کئی لڑکیاں اس پر جان چھڑکتیں تھیں۔۔۔ مگر وہ بے اعتنائی برتتا۔ آخر اس کی آنکھ ایک شوخ و شنگ لڑکی جس کا نام سیما تھا، لڑ گئی۔ سلیم نے اس سے راہ و رسم پیدا کرنا چاہا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس کا التفات حاصل کرلے گا۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہ تو یہاں تک سمجھتا تھا کہ سیما اس کے قدموں پر گر پڑے گی اور اس کی ممنون و متشکر ہوگی کہ اس نے محبت کی نگاہوں سے اسے دیکھا۔


ایک دن کالج میں سلیم نے سیما سے پہلی بار مخاطب ہو کر کہا، ’’آپ کتابوں کا اتنا بوجھ اٹھائے ہوئی ہیں۔۔۔لائیے مجھے دے دیجیے۔۔۔ میرا تانگہ باہر موجود ہے آپ کو اور اس بوجھ کو آپ کے گھر تک پہنچا دوں گا۔‘‘ سیما نے اپنی بھاری بھرکم کتابیں بغل میں دابتے ہوئے بڑے خشک لہجے میں جواب دیا، ’’آپ کی مدد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ بہر حال شکریہ ادا کیے دیتی ہوں۔‘‘ شہزادہ سلیم کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ پہنچا۔ چند لمحات کے لیے وہ اپنی خفت مٹاتا رہا۔ اس کے بعد اس نے سیما سے کہا ،’’عورت کو مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ نے میری پیش کش کو کیوں ٹھکرادیا؟‘‘ سیما کا لہجہ اور زیادہ خشک ہو گیا،’’عورتوں کو مرد کے سہارے کی ضرورت ہوگی۔۔۔ مگر فی الحال مجھے ایسی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔۔۔ آپ کی پیشکش کا شکریہ میں ادا کر چکی ہوں۔۔۔ اس سے زیادہ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘


یہ کہہ کر سیما چلی گئی۔ شہزادہ سلیم جو انار کلی کے خواب دیکھ رہا تھا، آنکھیں جھپکتا رہ گیا۔ اس نے بہت بری طرح شکست کھائی تھی۔ اس سے قبل اس کی زندگی میں کئی لڑکیاں آچکی تھیں جو اس کے ابرو کے اشارے پر چلتی تھیں۔۔۔ مگر یہ سیما کیا سمجھتی ہے اپنے آپ کو ۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خوبصورت ہے۔۔۔ جتنی لڑکیاں میں نے اب تک دیکھی ہیں ان میں سب سے زیادہ حسین ہے مگر مجھے ٹھکرا دینا۔۔۔ یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔۔۔ میں ضرور اس سے بدلہ لوں گا۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔


شہزادہ سلیم نے اس سے بدلہ لینے کی کئی اسکیمیں بنائیں مگربار آور ثابت نہ ہوئیں۔ اس نے یہاں تک سوچا کہ اس کی ناک کاٹ ڈالے۔ یہ وہ جرم کر بیٹھتا مگر اسے سیما کے چہرے پر یہ ناک بہت پسند تھی۔ کوئی بڑے سے بڑا مصور بھی ایسی ناک کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ سلیم تو اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوا۔مگر تقدیر نے اس کی مدد کی۔ اس کی والدہ نے اس کے لیے رشتہ ڈھونڈنا شروع کیا۔ نگاہِ انتخاب آخر سیما پر پڑی جو اس کی سہیلی کی سہیلی کی لڑکی تھی۔ بات پکی ہو گئی، مگر سلیم نے انکار کر دیا۔ اس پر اس کے والدین بہت ناراض ہوئے۔ گھر میں دس بارہ روز تک ہنگامہ مچا رہا۔ سلیم کے والد ذرا سخت طبیعت کے تھے، انھوں نے اس سے کہا ،’’دیکھو تمھیں ہمارا فیصلہ قبول کرنا ہوگا۔‘‘ سلیم ہٹ دھرم تھا۔ جواب میں یہ کہا،’’آپ کا فیصلہ کوئی ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں۔۔۔پھر میں نے کیا جرم کیا ہے جس کا آپ فیصلہ سنا رہے ہیں۔ ‘‘


اس کے والدین کو یہ سن کر طیش آگیا،’’تمہارا جرم کہ تم ناخلف ہو۔۔۔ اپنے والدین کا کہنا نہیں مانتے۔ عدول حکمی کرتے ہو، میں تمھیں عاق کر دوں گا۔ ‘‘ سلیم کا جوش ٹھنڈا ہوگیا،’’لیکن ابا جان ، میری شادی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے۔‘‘


’’ بتاؤ ، تمہاری مرضی کیا ہے؟ ‘‘


’’اگر آپ ٹھنڈے دل سے سنیں تو میں عرض کروں۔ ‘‘


’’میرا دل کافی ٹھنڈا ہے۔۔۔ تمھیں جو کچھ کہنا ہے فوراً کہہ ڈالو۔۔۔ میں زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتا۔‘‘


سلیم نے رک کے کہا، ’’مجھے۔۔۔ مجھے ایک لڑکی سے محبت ہے ۔‘‘


اس کا باپ گرجا، ’’کس لڑکی سے؟‘‘


سلیم تھوڑی دیر ہچکچایا، ’’ایک لڑکی ہے۔‘‘


’’ کون ہے وہ۔۔۔؟ کیا نام ہے اس کا ؟‘‘


’’سیما۔۔۔ میرے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی۔‘‘


’’میاں افتخار الدین کی لڑکی؟‘‘


جی ہاں،’’اس کا نام سیما افتخار ہے۔۔۔ میرا خیال ہے وہی ہے۔‘‘


اس کے والد بے تحاشہ ہنسنے لگے، ’’خیال کے بچے ۔۔۔تمہاری شادی اسی لڑکی سے قرار پائی ہے ۔۔۔کیا وہ تمھیں پسند کرتی ہے؟‘‘ سلیم بوکھلا سا گیا۔۔۔یہ سلسلہ کیسے ہوگیا اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہیں اس کا باپ جھوٹ تو نہیں بول رہا تھا۔۔۔ سلیم سے جو سوال کیا گیا تھا اس کا جواب اس کے والد کو نہیں ملا تھا ، چنانچہ انھوں نے کڑک کے پوچھا، ’’سلیم مجھے بتاؤ کیا سیما تمھیں پسند کرتی ہے؟‘‘


سلیم نے کہا، ’’جی نہیں۔‘‘


’’ تم نے یہ کیسے جانا؟‘‘


’’اس سے۔۔۔ اس سے ایک بار میں نے مختصر الفاظ میں۔۔۔ محبت کا اظہار کیا۔۔۔ لیکن اس نے مجھے۔۔۔‘‘


’’تمھیں درخور اعتنانہ سمجھا۔ ‘‘


’’جی ہاں۔۔۔ بڑی بے رخی برتی۔‘‘


سلیم کے والد نے اپنے گنجے سر کو تھوڑی دیر کے لیے کھجلایا اور کہا، ’’تو پھر یہ رشتہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔میں تمہاری ماں سے کہتا ہوں کہ وہ لڑکی والوں سے کہہ دے کے لڑکا رضا مند نہیں۔‘‘ سلیم ایک دم جذباتی ہوگیا۔’’ نہیں ابا جان۔۔۔ ایسا نہ کیجیے گا، شادی ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا ،میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ اور کسی کی محبت اکارت نہیں جاتی۔۔۔لیکن آپ ان لوگوں کو۔۔۔ میرا مطلب ہے سیما کو یہ پتہ نہ لگنے دیجیے کہ اس کا بیاہ مجھ سے ہو رہا ہے جس سے وہ بے رخی اور بے اعتنائی کا اظہار کر چکی ہے ۔‘‘ اس کے باپ نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرا،’’میں اس کے متعلق سوچوں گا۔‘‘یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ انھیں ایک ٹھیکیدار سے رشوت وصول کرنا تھی اپنے بیٹے کی شادی کے اخراجات کے سلسلے میں۔شہزادہ سلیم جب رات کو پلنگ پر سونے کے لیے لیٹا تو اسے انار کی کلیاں ہی کلیاں نظر آئیں ساری رات وہ ان کے خواب دیکھتا رہا۔


گھوڑے پر سوار باغ میں آیا ہے۔۔۔ شاہانہ لباس پہنے۔ اسپ تازی سے اتر کر باغ کی ایک روش پر جا رہا ہے۔۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ سیما انار کے بوٹے کی سب سے اونچی شاخ سے ایک نوخیز کلی توڑنے کی کوشش کررہی ہے۔۔۔ اس کی بھاری بھرکم کتابیں زمین پر بکھری پڑی ہیں۔۔۔ زلفیں الجھی ہوئی ہیں اور وہ اچک اچک کر اس شاخ تک اپنا ہاتھ پہنچانے کی کوشش کررہی ہے مگر ہر بار ناکام رہتی ہے۔ وہ اس کی طرف بڑھا، انار کی جھاڑی کے پیچھے چھپ کر اس نے اس شاخ کو پکڑا اور جھکا دیا۔ سیما نے وہ کلی توڑ لی جس کے لیے وہ اتنی کوشش کرہی تھی۔۔۔لیکن فوراً اسے اس بات کا احساس ہوا کہ وہ شاخ نیچے کیسے جھک گئی۔


وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ شہزادہ سلیم اس کے پاس پہنچ گیا۔ سیما گھبرا گئی لیکن سنبھل کر اس نے اپنی کتابیں اُٹھائیں اور بغل میں داب لیں، انارکلی اپنے جوڑے میں اڑس لی اور یہ خشک الفاظ کہہ کر وہاں سے چلی گئی،’’آپ کی امداد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ بہرحال شکریہ ادا کیے دیتی ہوں۔‘‘ تمام رات وہ اسی قسم کے خواب دیکھتا رہا۔ سیما، اس کی بھاری بھرکم کتابیں، انار کی کلیاں اور شادی کی دھوم دھام۔ شادی ہوگئی۔ شہزادہ سلیم اس تقریب پر اپنی انار کلی کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھ پایا تھا۔ وہ اس لمحے کے لیے تڑپ رہا تھا جب سیما اس کی آغوش میں ہوگی۔ وہ اس کے اتنے پیار لے گا کہ وہ تنگ آ کر رونا شروع کردے گی۔


سلیم کو رونے والی لڑکیاں بہت پسند تھیں۔ اس کا یہ فلسفہ تھا کہ عورت جب رو رہی ہو تو بہت حسین ہو جاتی ہے۔ اس کے آنسو شبنم کے قطروں کے مانند ہوتے ہیں جو مرد کے جذبات کے پھولوں پر ٹپکتے ہیں جن سے اسے ایسی راحت، ایسی فرحت ملتی ہے جو اور کسی وقت نصیب نہیں ہوسکتی۔


رات کے دس بجے دولہن کو حجلہ عروسی میں داخل کر دیا گیا۔ سلیم کو بھی اجازت مل گئی کہ وہ اس کمرے میں جاسکتا ہے۔ لڑکیوں کی چھیڑ چھاڑ اور رسم و رسوم سب ختم ہوگئی تھیں ۔وہ کمرے کے اندر داخل ہوا۔ پھولوں سے سجی ہوئی مسہری پر دولہن گھونگھٹ کاڑھے ریشم کی گٹھری سی بنی بیٹھی تھی۔ شہزادہ سلیم نے خاص اہتمام کر لیا تھا کہ پھول، انار کی کلیاں ہوں۔۔۔ وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ مسہری کی طرف بڑھا اور دولہن کے پاس بیٹھ گیا۔ کافی دیر تک وہ اپنی بیوی سے کوئی بات نہ کرسکا ۔۔۔اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کی بغل میں کتابیں ہوں گی جن کو وہ اٹھانے نہیں دے گی۔ آخر اس نے بڑی جرأت سے کام لیا اور ا سے کہا، ’’سیما۔۔۔‘‘


یہ نام لیتے ہی اس کی زبان خشک ہوگئی لیکن اس نے پھر جرأت فراہم کی اور اپنی دولہن کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھایا اور بھونچکارہ گیا۔۔۔ یہ سیما نہیں تھی۔۔۔کوئی اور ہی لڑکی تھی۔۔۔انار کی ساری کلیاں اس کو ایسا محسوس ہوا کہ مرجھا گئی ہیں