ان پڑھ گونگے کا رجز

خاموشی میرا لشکر ہے
لفظوں کی دلدل
اور اس میں پلنے والی جونکیں
یہ متعفن آوازیں
میری یلغار کے آگے ثابت قدم رہیں گی؟
کیا تم واقعی ایسا سمجھتے ہو
کہ تمہارے میدان اتنے فراخ ہیں
کہ میرے اسپ اصیل کو تھکا دیں گے
تمہارے سمندر اتنے مواج ہیں
کہ میرا رزق الٹ دیں گے
اور تمہارے پہاڑ اتنے سنگلاخ ہیں
کہ میرا جھنڈا نہ تھامیں گے


دشمن احمق ہو تو میرا غصہ بڑھا دیتا ہے
ثقاہت میری معینہ مقتول ہے
اور خوش فہمی مقررہ مذبوح
میری چنگھاڑ صور اسرافیل کا پیش آہنگ ہے
لفظ کی منمناہٹ سے پاک
اندھے سیاروں کے ٹکراؤ کی مافوق سماعت گڑگڑاہٹ
آواز کی مکمل منہائی کا شور
لکھے ہوئے لفظ کو بھی شق کر دیتا ہے
یہ عبارتیں تمہارا صف بستہ لشکر ہیں
فرضی ہتھیاروں سے مسلح یہ لشکر
جسے خیالی قلعوں کے برج گرانے کا بڑا تجربہ ہے
اس کی نا بودی میری ایک چپ کے فاصلے پر ہے


یاد! رکھنا
میرے پاس کوئی رسی نہیں ہوتی
جو تمہارے گلے میں ڈالنے اور
تمہارے ہاتھ باندھنے کے کام آئے
میرا فتراک ہمیشہ خالی رہتا ہے
اور میرے قید خانے کبھی آباد نہیں رہے
میں جنگ سے پہلے ہی دشمن شمار کر لیتا ہوں
پھر مقتولین کی گنتی نہیں کرتا


سب جانتے ہیں
مجھ پر نیزہ پھینکنے والوں کی پسپائی ناتمام رہتی ہے
میری ہیبت سے زمین مقناطیس بنتی ہے
اور ہوا کہربائی کرتی ہے


میرا شکار بجلیاں ہانکتی ہیں
موت میرا ترکش اٹھا کر چلتی ہے
اور میرا رتھ آندھیاں کھینچتی ہیں
لفظوں کے مکتوب جنگل اتنے گھنے نہیں ہیں
کہ تمہیں آگ کی بارش سے تر بتر نہ ہونے دیں
صرف و نحو کا سائبان اتنا بڑا نہیں ہے
کہ ستارۂ اجل تم سے اوجھل رہ جائے
کتابوں سے اتنی اونچی دیوار نہیں بنتی
کہ قتال سناٹا پھلانگ نہ سکے


کیا حسین دنیا تھی
جسے تم نے لفظوں سے داغ دار کر دیا
اس کے تابندہ آفاق
ان پنجروں میں گھٹ کر ساقط الشمس ہو گئے ہیں
کیسی زندہ زمین تھی
جس میں تم نے زہر بو دیا
کیسا روشن آسمان تھا
جسے تم تاریکی کے مفہوم میں صرف کر چکے ہو
تم نے شعور کو جھوٹا
اور فطرت کو گدلا کر دیا ہے
محض زبان کے چٹخارے کے لیے
تم نے وجود کا اثاث البیت
فرہنگوں کے مول بیچ کھایا


میں کائنات کی بازیابی کے لیے نکلا ہوں
میرا خنجر لفظ کا پیٹ چاک کرے گا
معنی کی زنبیل پھاڑ ڈالے گا
اور کذاب اشاروں کے ہاتھ قلم کر دے گا
جنہوں نے سیاروں کو گمراہ کر رکھا ہے


بے زبانوں کو مژدہ ہو
حقیقت کا اصلی تناظر بحال ہونے کو ہے
تمہارے دشمن فصیلوں کے تصور میں محصور ہیں
سیاہ آئینے کی یہ مخلوق
جس کی منحوس پرچھائیں نے
ہر طرف شور مچا رکھا ہے
خود ہی اپنا مدفن ہے
میری آخری یلغار سے ہو جائیں گے سارے مناظر
ساری آوازیں
آزاد
نا ملفوظ۔۔۔۔