الوداع

لڑکپن کی رفیق اے ہم نوائے نغمۂ طفلی
ہماری گیارہ سالہ زندگی کی دل نشیں وادی
ہمارے ذہن کی تخئیل کی احساس کی ساتھی
ہمارے ذوق کی رہبر ہماری عقل کی ہادی


ہمارے دامن افکار پر تیرا ہی سایا ہے
خوشا اسکول کہ ہم نے تجھی سے فیض پایا ہے


ہماری دھڑکنیں تیرے ہی بام و در میں پنہاں ہیں
ترے ماحول میں ہم سب کے محسوسات غلطاں ہیں
ہماری آرزوئیں تیرے دالانوں میں رقصاں ہیں
نقوش عہد رفتہ تیرے ماتھے پر نمایاں ہیں


ہمارے واسطے تو ایک لافانی مسرت ہے
ہمیں اسکول تیرے ذرے ذرے سے محبت ہے


ترے آغوش میں بچپن کے ہم نے دن بتائے ہیں
ترے آنگن میں کتنا روئے کتنا مسکرائے ہیں
یہاں مسرور آنکھوں میں نئے ارماں جگائے ہیں
یہاں معصوم ہونٹوں سے ترانے ہم نے گائے ہیں


ترے سائے میں بچپن کی سہانی یادگاریں ہیں
ہمارے عہد گم گشتہ کے لمحوں کی قطاریں ہیں


یہاں سے دوستی کی کتنی تعمیریں اٹھائی ہیں
رفاقت کی حیات افروز دنیائیں بسائی ہیں
یہاں پر شوخیوں کی بے کراں موجیں بہائیں ہیں
یہاں بزمیں سجائی ہیں یہاں دھومیں مچائی ہیں


ترے پہلو میں کتنی ہی انوکھی وارداتیں ہیں
ترے ہونٹوں پہ کتنی ہی تبسم ریز باتیں ہیں


ترے دامن سے ہم نے قیمتی لمحات پائے ہیں
خلوص و انسیت کے بے بہا جذبات پائے ہیں
ترے ساغر سے ہم نے فیض کے جرعات پائے ہیں
ہماری فکر نے تجھ ہی سے رجحانات پائے ہیں


تجھے پا کر جو پایا ہے اسے ہم کھو نہیں سکتے
ترے ہیں تیرے اپنے ہیں پرائے ہو نہیں سکتے


نئے سازوں پہ جب تیرے ترانے گائے جائیں گے
نئے غنچے ترے گلزارؔ میں جب مسکرائیں گے
نئی کرنوں سے جب تیرے دریچے جگمگائیں گے
نئے ارمان جب تجھ میں نئی جنت بسائیں گے


نئے ساتھی ترے آنگن میں جب دھومیں مچائیں گے
تو شاید ہم بھی اے اسکول تجھ کو یاد آئیں گے


یہ مانا زندگی ہم کو بہت مصروف کر دے گی
ہمارے ذہن کو دنیا کے اندازوں سے بھر دے گی
ہزاروں مسئلوں پر دعوت فکر و نظر دے گی
کہ جب تھوڑی سی مہلت گردش شام و سحر دے گی


غم دوراں سے جب بھی فرصت یک لمحہ پائیں گے
تری یادوں میں کھو جائیں گے خود کو بھول جائیں گے