علامہ کی مستقبل کی پیش گوئی کرتی نظم: لالہ صحرائی

یہ گُنبدِ مِینائی، یہ عالمِ تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہُوا راہی مَیں، بھٹکا ہُوا راہی تُو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی!
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تُو شعلۂ سینائی، مَیں شعلۂ سینائی!
تُو شاخ سے کیوں پھُوٹا، مَیں شاخ سے کیوں ٹُوٹا
اک جذبۂ پیدائی، اک لذّتِ یکتائی!
غوّاصِ محبّت کا اللہ نِگہباں ہو
ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی
اُس موج کے ماتم میں روتی ہے بھَنْور کی آنکھ
دریا سے اُٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
ہے گرمیِ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سُورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی
اے بادِ بیابانی! مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی!

متعلقہ عنوانات