محبت کو دولت بڑی جانتے ہیں: علامہ اقبال کی ابتدائی غزل
محبت کو دولت بڑی جانتے ہیں
اسے مایۂ زندگی جانتے ہیں
بُری چال ہوتی ہے بے اعتنائی
یہی ہم تو اچھّی بری جانتے ہیں
وہ کیا قدر جانیں گے میری وفا کی
کہ ہوتے ہیں جو آدمی ، جانتے ہیں
کوئی قید سمجھے مگر ہم تو اے دل
محبت کو آزادگی جانتے ہیں
حسینوں میں ہیں کچھ وہی ہوش والے
کہ جو حسن کو عارضی جانتے ہیں
جو ہے گلشنِ طور اے دل تجھے ہم
اسی باغ کی اک کلی جانتے ہیں
کہا ماجرا ان کے گھر کا تو بولے
قسم ہے ، تجھے ہم ولی جانتے ہیں
نرالے ہیں انداز دنیا سے اپنے
کہ تقلید کو خود کشی جانتے ہیں
بڑے شوخ و گستاخ ہیں رند ، زاہد
مسلمان کو دوزخی جانتے ہیں
تری چال دیکھی ہوئی ہے جنھوں نے
قیامت کو اک دل لگی جانتے ہیں
میں ہوں صاف گو منہ نہ کھلوایے گا
تمہاری وفا کو سبھی جانتے ہیں
گداگر ہو اور بال ہوں سر کے لمبے
مسلمان اس کو ولی جانتے ہیں
بدلنا پڑا ہم نشیں نامہ بر کو
اسے واں کے سب آدمی جانتے ہیں
عجب زندگانی ہے اقبال اپنی
نہ مر جانتے ہیں نہ جی جانتے ہیں
کہا میں نے اقبال کو جانتے ہو؟
تو بولے یہ ہنس کر کہ جی جانتے ہیں
نئی ہو ، پرانی ہو ، اقبال کو کیا؛
یہ حضرت تو بس ایک پی جانتے ہیں
بیاض اعجاز، ص28
ابتدائی کلام اقبال ص 114