لاؤں وہ تنکے کہيں سے آشيانے کے ليے: علامہ اقبال کی غزل
لاؤں وہ تنکے کہيں سے آشيانے کے ليے
بجلياں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے ليے
وائے ناکامي ، فلک نے تاک کر توڑا اسے
ميں نے جس ڈالي کو تاڑا آشيانے کے ليے
آنکھ مل جاتي ہے ہفتاد و دو ملت سے تري
ايک پيمانہ ترا سارے زمانے کے ليے
دل ميں کوئي اس طرح کي آرزو پيدا کروں
لوٹ جائے آسماں ميرے مٹانے کے ليے
جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو
آ ہي نکلے گي کوئي بجلي جلانے کے ليے
پاس تھا ناکامي صياد کا اے ہم صفير
ورنہ ميں ، اور اڑ کے آتا ايک دانے کے ليے!
اس چمن ميں مرغ دل گائے نہ آزادي کا گيت
آہ يہ گلشن نہيں ايسے ترانے کے ليے
(بانگِ درا، حصہ اول 1905 تک)