بھارت کی مسلم طالبات ہندوتوا کے خلاف اپنی تعلیمی جنگ کیسے لڑ رہی ہیں؟
میں کل ایز یوزول (as usual) جیسے کالج کو جاتا ہےویسے کالج کو گئی تھی وہاں باہر ہی لڑکے مجھے گروپ بنا کے بول رہے تھےکہ تم برقع نہیں پہن سکتی۔ اگر تم برقع پہنی تو تمہیں کالج کے اندر نہیں جانا۔اتنا انٹرسٹ ہے برقع پہننے کا تو گھر کو واپس چلی جاؤ۔
وائرل ویڈیو میں ’’جے شری رام‘‘ کی پچاس ساٹھ آوازوں کے جواب میں تنہا "اللہ اکبر" کی آواز بلند کرنے والی صنف آہن مسکان خان نے تمام معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ ٹی وی نائن نامی بھارتی چینل کو انٹرویو میں ان کی دو سطروں کی یہ وضاحت اس تمام تر ستم کی وضاحت ہے جس کے خلاف بھارت کی ریاست کرناٹکا میں مسلم طالبات برسرپیکار ہیں۔ وہ اپنے حجاب کے حق کے لیے عدالت، سڑکوں اور تعلیمی اداروں میں انتہا پسند ہندتوا سے لڑ رہی ہیں۔ ان کو تعلیم سے اس لیے محروم کیا جا رہا ہے کہ وہ حجاب کرتی ہیں۔ اس کی شروعات اس ویڈیو والے واقعے سے نہیں ہوئی بلکہ اس کے تانے بانے دسمبر میں شروع ہونے والے تنازعے سے ملتے ہیں۔
بھارتی معروف اخبار دی ہندو سمیت دیگر اخبارات کے مطابق یہ تنازع دسمبر میں شروع ہوا جب ایک سرکاری کالج میں چھے طالبات کو کلاسز میں صرف اس لیے بین کر دیا گیا کہ وہ حجاب کرتی ہیں۔ اکتیس دسمبر کو انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے پندرہ روز سے انہیں حجاب کے باعث کلاسز میں داخل ہونے نہیں دیا جا رہا۔ بی جے پی کے مقامی رہنما جو کہ کالج کی ایک کمیٹی کی سربراہی کرتے تھے، نے طالبات کے والدین سے ملاقات کی اور انہیں کالج میں نافذ کردہ ڈریس کوڈ کی پابندی کروانے کو کہا۔ اس بنا پر چھے کی چھے طالبات کلاسز میں داخلہ حاصل نہ کر پائیں اور ہائی کوٹ پہنچ گئیں۔
تنازعے میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب کچھ ہندو انتہا پسند لڑکے حجاب کی ضد میں ہندوؤں کی خاص چادر اور پگڑی پہننے کی ضد کرنے لگے اور انہیں پہن کر کلاس میں آنے لگے۔ یہ لڑکے اور ان کے درپردہ سرپرست کالج انتظامیہ پر حجاب کو مکمل بین رکھنے کے لیے دباؤ ڈالنے لگے۔ یہ تمام تنازع صرف اس سرکاری کالج تک محدود نہ رہا بلکہ دیگر تعلیمی اداروں سے بھی اسی قسم کی خبریں آنے لگیں۔ مسلم طالبات سڑکوں پر آنے لگیں کہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے صرف اس لیے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حجاب کرتی ہیں۔ ان طالبات کی حمایت میں طالب علم بھی سڑکوں پر آنے لگے اور ان کے ہندو انتہا پسند لڑکوں سے تصادم ہونے لگے۔ تصادم اور تشدد کے واقعات جب حد سے بڑھے تو پانچ فروری کو کرناٹکا کی حکومت نے ایک آرڈر جاری کیا۔ اس میں طالبہ و طالبات کو کالج انتظامیہ کے متعین کردہ ڈریس کوڈ کے ساتھ آنے کو کہا گیا۔ یہ حجاب پر پابندی کی حکومتی حمایت تھی۔ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ بھارتی ریاستوں میں کس قسم کے ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت ہے اور ان کے کیا ایجنڈے ہیں۔ بہر کیف، اس آرڈر کے باعث بہت سی حامل حجاب مسلم طالبات اپنے تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کی جانے لگیں۔ اور ظاہر ہے وہ اپنا حق لینے سڑکوں پر آنے لگیں۔ معاملہ کرناٹکا کی ہائی کورٹ میں پہنچ گیا۔
ہمیں جو سوشل میڈیا پر مسکان خان نامی مجاہدہ کی ویڈیو دیکھنے کو ملی ہے وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بقول مسکان خان اس دن وہ اپنی اسائمنٹ جمع کروانے کالج میں آئیں۔ کالج کے گیٹ پر ہی انہیں پگڑیاں پہنے لڑکوں نے گھیر لیا اور انہیں حجاب اتارنے کا کہنے لگے۔ اس دوران انہوں نے اس مجاہدہ کو ہراساں کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اپنی تعلیم اور حجاب کے حق کی خاطر لڑتی یہ مجاہدہ نہ گھبرائی۔ انہوں نے جے شری رام کا نعرہ لگایا تو انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر دیا۔ اسی جرات نے انہیں حجاب کی تحریک کا چہرہ بنا دیا۔ پوری دنیا میں انہیں سراہا جانے لگا۔ جمیعت علمائے ہند نے اس مجاہدہ کے لیے پانچ لاکھ روپے کے انعام کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ آج کرناٹکا کی ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آ گیا ہے۔ اس فیصلے نے حجاب کے بین کو بنیادی حق کی معطلی سے تعبیر کر دیا ہے۔
مسکان خان نے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان سے پہلے بھی چار لڑکیاں کالج کو آئیں تھیں جو خوف زدہ ہو کر گھروں کو واپس چلی گئیں۔ لیکن وہ نہیں گھبرائیں۔ ان کا باقی تمام طالبات کو پیغام تھا: ’’ اگر ہم صحیح ہیں تو کیوں ڈرنا‘‘۔ یہ پیغام صرف طالبات کے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے ہے۔