الزبتھ ہومز: جدید ٹیکنالوجی پر مبنی صدی کے بڑے فراڈ کی کہانی
یہ کوئی دیو مالائی یا من گھڑت کہانی نہیں بلکہ اکیسویں صدی میں دن دیہاڑے ہونے والے اربوں ڈالر کے فراڈ کی داستان ہے، وہ بھی امریکی شاطر و ذہین دماغوں کے درمیان بیٹھ کر۔ الزبتھ ہومز، ایک امریکی لڑکی جس نے برسوں تک دنیا کے ذہین اور شاطر ترین دماغوں کو بے وقوف بنایا۔ ان سے برسوں ایسی ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کروائی جو اصل میں فراڈ تھی۔ اسی جعلی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر الزبتھ نے اپنی کمپنی تھرانوس کی مالیت کو نو ارب ڈالر تک پہنچا دیا۔ عالمی اخبارات اس وقت اسے میڈیکل ٹیکنالوجی کا ایک بڑا فراڈ گردان رہے ہیں ۔
الزبتھ ہومز2014 تک امریکہ میں ٹیکنالوجی کے مرکز سلیکان ویلی کی شہزادی سمجھی جاتی تھی ۔ انہیں ایپل کمپنی کے بانی سٹیو جوبز کی خاتون شکل قرار دیا جاتا تھا۔ فوربز نے انہیں 2014 کی ایسی امیر ترین نوجوان ارب پتی قرار دیا تھا، جس نے اپنی محنت سے 4.3 ارب ڈالر تک کے مالیت کے اثاثہ جات بنائے تھے اور دولت اکٹھی کی تھی۔ وہ سابقہ امریکی صدر بل کلنٹن ، مشہور چینی کاروباری شخصیت جیک ما اور دیگر بااثر شخصیات کے ساتھ مختلف تقریبات اور کانفرنسز میں مدعو ہوتی تھیں۔ لیکن پھر 2015 کے بعد حالات کا پہیہ الٹا گھومنے لگا۔ ان کی کمپنی تھرانوس کے ملازم نے پہلی بار وال سٹریٹ جرنل کے صحافی کو انٹرویو میں بتایا کہ الزبتھ ہومز جس ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کھڑی ہیں، وہ تو دراصل فراڈ ہے۔
الزبتھ ہومز کی جعلی ٹیکنالوجی تھی کیا؟
الزبتھ ہومز نے کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ اپنے اس دعوے پر سمیٹی کے انہوں نے ایسا ایک آلہ ایجاد کیا ہے جس کے ذریعے آپ کسی بھی کا ذرا سا خون لے کر کئی سو بیماریوں کا پتہ چلا سکتے ہیں۔ ان کے آلے نے تو ایک دفعہ طب کے شعبے میں دھوم مچا دی تھی۔ انہوں نے یہ دعویٰ 2003 میں صرف انیس برس کی عمر میں اپنی کمپنی تھرانوس کی بنیاد ڈالنے کے بعد کیا۔ نیچر جریدے کی ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے اپنے دعوے میں کہا کہ صرف انگلی سے ذرا سے خون کے ذریعے ان کا آلہ دو سو بیماریوں کا پتہ چلا سکتا ہے۔ دعوے کے بعد انہوں نے اپنی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سابقہ امریکی وزرائے خارجہ جورج شولٹس اور ہنری کسنجر جیسی بھاری بھرکم شخصیات کو شامل کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے میڈیا کی خوب توجہ حاصل کی اور سات سو سے نو سو ملین کے لگ بھگ فنڈنگ حاصل کر لی۔یہ دھندا ان کا 2003 سے لے کر 2015 تک چلتا رہا لیکن پھر سابقہ وزیر خارجہ جورج شولٹس کے نواسے یا پوتے ٹائلا شولٹس اور ان کی ساتھی ایرکا نے وال سٹریٹ جرنل کے ایک رپورٹر کو خفیہ انٹرویو دے ڈالا۔ اس انٹرویو کی بنیاد پر وال سٹریٹ جرنل میں رپورٹ شائع ہوئی اور وہ ٹیکنالوجی جسے طب کے شعبے کا انقلاب سمجھا جا رہا تھا، کے لیے سوالات کھڑے ہونا شروع ہو گئے۔ اس وقت وہ سٹارٹ اپ جو 2003 کا شروع ہوا تھا، اب نو ارب ڈالر کی ایک بڑی کمپنی بن چکا تھا۔
الزبتھ کی کمپنی تھرانوس جعل سازی کیسے کرتی تھی؟
تھرانوس کمپنی کو کئی میڈیکل سینٹرز سے خون کے سیمپل بھجوائے جاتے تھے۔ سب کو یقین تھا کہ ان کے سیمپلز تھرانوس کی جدید لیب میں ایڈسن نامی آلے سے کیے جائیں گے جو دو سو تک بیماریوں کی نشاندہی کی اہلیت رکھتا ہے۔ لیکن ان کا یقین صرف ایک خام خیالی تھا۔ نیچر جریدے کی ویب سائٹ کے مطابق تھرانوس کی لیباٹری میں خون کے سیمپلز کو پتلا کر کے ان کی مقدار بڑھائی جاتی تھی۔ پھر انہیں ان روایتی مشینوں پر چیک کر لیا جاتا تھا جو عمومی طور پر استعمال کی جاتی تھیں۔ جس آلے کی بنیاد پر الزبتھ نے تمام تھرانوس کھڑی کی تھی وہ درست نتائج دینے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ یہ بات الزبتھ جانتی تھی اور ان کا ساتھی سنی بلوانی بھی۔ لیکن وہ مسلسل سرمایہ داروں، امریکی حکام، عام عوام اور میڈیا سے ببانگ دہل جھوٹ بولتے رہے۔
الزبتھ ہومز کا زوال:
سلیکان ویلی کی شہزادی الزبتھ ہومز کو پہلی ضرب ٹائلا شولٹس اور ان کی ساتھی ایرکا نے 2015 میں لگائی۔ دونوں تھرانوس میں ملازم تھے۔ پھر امریکی حکام اور فوڈ اور ڈرگ اتھارٹی نے بھی انویسٹی گیشن شروع کر دی۔ 5201میں الزبتھ کو دو سال کے لیے میڈکل ٹیسٹنگ کے شعبے سے بین کر دیا گیا اور تھرانوس کے کاروبار کو روک دیا گیا۔ 2018 میں الزبتھ ہومز، ان کے ساتھی سنی بلوانی اور تھرانوس کمپنی کا ٹرائل شروع ہوا۔ بعد میں ہومز نے اپنے سرمایہ کاروں، شیئر ہولڈرز اور دیگر سٹاف کو میل بھیج دی کہ کمپنی بند ہو رہی ہے۔ اب الزبتھ ہومز اور ان کے ساتھی سنی بلوانی کو مختلف الزامات کی پاداش میں قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔
یوں امریکہ میں ایک فراڈ کئی ذہن اور شاطر دماغوں اور لاکھوں مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچا ہے۔