علی شریعتی قیدِ حیات میں
ڈاکٹر علی شریعتی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی اپنے بیٹے احسان کو وصیت
مگر مجھے معلوم نہیں کہ ابھی تقدیر مجھے کتنے دن مزید اپنے فرائض کی ادائیگی کے سلسلے ميں مہلت دے گی ؟ بہرحال ، میں میٹرلینگ کے ان اشعار کو تمہارے لئے دہراتا ہوں ، جنہیں اس نے موت کے بستر پر، اپنے بیٹے کے لیے ، اپنی خدمت گار سے مخاطب ہو کر کہا تھا :
" جب وہ یہاں آئے ،
تو یہ چھڑی ، یہ گٹھڑی اور میری پاپوش اس کے حوالے کرنا ،
اور اس سے کہنا کہ میں نے چالیس سال پہلے :
اس چھڑی کو ہاتھ میں لیا تھا
اس پاپوش کو پاؤں میں پہنا تھا
اور اس گٹھڑی کو کاندھے پر ڈال کر
چل پڑا تھا ، چالیس سال تھکے بِنا انتہائی شیفتگی اور پیاس کے ساتھ میں نے اپنا سفر جاری رکھا اور اب تک یہاں پہنچا ہوں
اور تم میرے بچے
اب میری چھڑی اپنے ہاتھ میں لے لو
میری پاپوش پہنو
میری گٹھڑی اپنے کاندھے پر ڈالو
اور اس راستے میں جہاں آ کر مَیں رہ گیا ہوں ، وہاں سے آگے بڑھو
اور تم بھی اپنی زندگی کے اختتام پر قطعاً اسے اپنے بیٹے کے حوالے کرو اور وہ بھی نیز یونہی ۔۔۔"
اقتباس از سوانحِ ڈاکٹر علی شریعتی شہید ، "علی شریعتی قید حیات میں"
نوٹ:
ڈاکٹر علی شریعتی شہید رحمۃ اللہ علیہ ایرانی انقلاب کے نقیب ، مبلغ ، اسلامی اسکالر اور فلسفی تھے ۔ ان کی تصانیف ایک خالص اسلامی مصنف اور امت کا درد رکھنے والے ایک مبلغ کے قلم کی عکاس ہیں۔
استعمار کے سخت ترین نقاد اور کاٹ کھانے والی ملوکیت کے خلاف آواز بلند کرنے پر آپ کو رضا شاہ پہلوی کی خفیہ ایجنسی ، ساواک کے کارندوں نے 19 جون 1977 کو شہید کر دیا۔۔۔۔
جبکہ میٹر لنک ،
Maurice Maeterlinck
بیلجیم کے معروف شاعر اور ڈرامہ نویس تھے ، جنہیں دنیا بھر میں اپنی ادبی خدمات کے باعث بہت سراہا جاتا ہے۔