علی شریعتیؒ کا یوم پیدائش

آج مشہور دانشور ، عالم دین ، مبلغ  اور مفکر، ڈاکٹر علی شریعتیؒ  کا یوم پیدائش ہے۔

 

عالم اسلام کے مشہور دانش ور اور انقلابی مفکر،  ڈاکٹر علی شریعتیؒ،  23 نومبر 1933ء کو ایران میں مشہد کے مضافات میں میزنن کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔

18 برس کی عمر میں انہوں نے تدریس کے پیشے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

1964ء میں انہوں نے فرانس کی مشہور سوربون یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

وطن واپسی پر وہ دوبارہ مشہد یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ ایک مسلمان ماہر عمرانیات کی حیثیت سے انہوں نے مسلم معاشروں کے مسائل کے حل کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں پرکھنا شروع کیا اور انہی اصولوں کے مطابق ان کے حل تجویز کیے، جلد ہی انہیں طالب علموں اور ایران کے مختلف سماجی حلقوں میں مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی جس سے خائف ہو کر  ایران  کی بادشاہت نے ان کا تبادلہ مشہد سے تہران کر دیا۔

تہران میں ڈاکٹر علی شریعتی کی زندگی کا ایک انتہائی فعال اور روشن دور شروع ہوا۔ یہاں انہوں نے ایک مذہبی ادارے حسینیہ ارشاد میں لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا جس کے شرکا کی تعداد رفتہ رفتہ ہزاروں تک پہنچ گئی۔

حکومت نے ان کی اس مقبولیت سے خوف زدہ ہو کر ان کے لیکچرز پر پابندی لگا دی اور انہیں قید کی سزا سنا دی۔ عوام کے دباؤ اور بین الاقوامی احتجاج کے باعث 20 مارچ 1975ء کو انہیں رہا کر دیا گیا، تاہم ان پر اپنے خیالات کی اشاعت اور اپنے طالب علموں سے ملاقات کرنے پر پابندی عائد رہی۔

 

اس صورت حال میں ڈاکٹر علی شریعتی نے انگلینڈ ہجرت کا فیصلہ کیا تاہم وہاں بھی شاہ کے کارندے ان کا پیچھا کرتے رہے اور 19 جون 1977ء کو انہیں قتل کر دیا گیا۔

ڈاکٹر علی شریعتی کے متعدد لیکچرز کتابی صورت میں شائع ہوئے اور ان کے لاتعداد کیسٹس ایران میں گھر گھر تقسیم ہوئے۔ وہ علامہ اقبال کے مداحین میں شامل تھے اور انہوں نے اقبال کے حوالے سے بھی کئی لیکچرز دیے تھے ، جنہیں  کتابی شکل میں بھی شائع کیا جا چکا ہے ، جبکہ اس کتاب کا  اردو ترجمہ "ہم اور اقبال" کے نام سے  کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر علی شریعتی کی دیگر تصانیف میں فاطمہ فاطمہ ہے، علی اور تنہائی، حج، مارکسزم اور مغربی مغالطے، مشن آف اے فری تھنکر، حسین وارثِ آدم ، جانشینی اور شوریٰ ، مذہب بمقابلہ مذہب، جہاد اور شہادت  ، چہار زندانِ انسان  اور سرخ شیعت کے نام سرفہرست ہیں۔

ڈاکٹر علی شریعتی کو انقلابِ ایران کا معمار تسلیم کیا جاتا ہے۔ انقلاب ایران کے بعد ایران میں نہ صرف ان کی تصانیف کی اشاعت ممکن ہوئی بلکہ ان کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا اور ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔ احمد فراز کا یہ شعر ہر اعتبار سے ڈاکٹر علی شریعتی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی ذات پر پورا اترتا ہے

سحَر کو رنگ مِلا ہے ، اسی کے صدقے میں

ستونِ دار پہ ہم نے جو شب  گزاری ہے

متعلقہ عنوانات