الفاظ صبر و شکر کے بولی میں آ گئے
الفاظ صبر و شکر کے بولی میں آ گئے
جنت کے پھل غریب کی جھولی میں آ گئے
پہلی سی اب نہ راتیں نہ نیندیں نہ خواب ہیں
سپنے سمٹ کے نیند کی گولی میں آ گئے
رنگوں کا کیا منائیں گے تہوار آج لوگ
ان کو مزے تو خون کی ہولی میں آ گئے
کٹیا سے بالاتر رہے خوف و ہراس و غم
خطرے حویلیوں میں رنگولی میں آ گئے
شاید ہوس کا ناگ بھکارن کو ڈس گیا
بے جا ابھار دامن و چولی میں آ گئے
کیوں جانے چل کے شہر نگاراں سے آج دل
دیوانہ وار گاؤں کی ٹولی میں آ گئے