المیہ

کہاں اب کہاں وہ ہوا
جو سنہری سی الھڑ سی پگڈنڈیوں پر
مرے پیچھے پیچھے چلی میں نے جس سے کہا
یوں نہ آ دیکھ لے گا کوئی
وہ ہنسی زہر میں ڈوبے ہونٹوں نے مجھ سے کہا
تو یوں ہی ڈر گیا
میں ہوا
دور پربت پہ میرا نگر
اونچے آکاش پر میرا گھر
زرد پگڈنڈیوں سے مجھے واسطے


اور میں بڑھتا گیا
اونچا اٹھتا گیا
دور پربت پہنچا تو گونگا نگر
مجھ کو حیرت سے تکنے لگا
سونے آکاش سے
ٹوٹے کنگن کی کرچیں برسنے لگیں
نیچے پگڈنڈیوں پر بھی کوئی نہ تھا