علامہ اقبال کی شاعری میں انقلاب کا تذکرہ
اقبال کی شاعری میں ہمیں انقلاب کا تذکرہ جابجا ملتا ہے۔ اقبال حالات کو جوں کا توں چھوڑنے اور موافقت پیدا کرنے کی بجائے حالات کو تبدیل کرنے کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔
گئے وہ دن ،اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں،میانِ محفل گداز ہوجا
خاک میں تجھ کو مقدر نے ملادیا ہے اگر
تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل !کہ تُو
قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے
کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تُو
دیکھ تُو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے
اقبال کے نزدیک مغربی مادہ پرستی اور اس کے اجزاء نے زندگی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے مطابق اب انسان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ ان پراگندہ روایات اورجالوں کو توڑ کر اپنے لیے نئی دنیا خود تشکیل دے۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
پردہ چہرے سے اٹھا ،انجمن آرائی کر
چشم مہرومہ و انجم کو تماشائی کر
اٹھ کے خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں
دگر گوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی!
دل ہر ذرّہ غو غائے رستاخیز ہے ساقی
ندرت فکروعمل کیا شے ہے؟ذوق انقلاب
ندرت فکروعمل کیا شے ہے ؟ملت کا شباب
ندرت فکروعمل سے معجزات زندگی
ندرت فکروعمل سے سنگ خارہ،لعل ناب
ترا بحر پر سکوں ہے یہ سکوں ہے یا فسوں ہے
نہ سنگ ہے نہ طوفاں،نہ خرابی کنارہ
دنیا کو ہے اس مہدی ٔ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار
کیا نوائے اناالحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوب ہے قُم باذن اللہ
غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور تا
فرنگیوں کا یہ افسوں ہے قُم باذن اللہ
دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت
طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل دے
یوں بھی دستور گلستاں کو بدل سکتے ہیں
کہ نشیمن ہو عنا دل پہ گراں مثل قفس
دگر گوں عالم شام و سحر کر
جہان خشک و تر ،زیر و زبر کر
ہر قوم کےافکار میں پیدا ہے تلاطم
مشرق میں ہے فردائے قیامت کی نمود آج
فطرت کے تقاضوں سے ہوا حشر پہ مجبور
وہ مردہ کہ تھا بانگ سرافیل کا محتاج
ضمیر جہاں اس قدر آتشیں ہے
کہ دریا کی موجوں سے ٹوٹے ستارے