عکس روشن ترا آئینۂ جاں میں رکھا
عکس روشن ترا آئینۂ جاں میں رکھا
ہم نے تصویر کو حیرت کے جہاں میں رکھا
کون مایوس تری بزم عنایت سے اٹھا
تیرے اکرام نے کس کس کو گماں میں رکھا
کوئی مدہوش نہ ہو ساعت گل بوسی میں
اس نے یوں پھول کو کانٹوں کی اماں میں رکھا
وہ سمجھتا تھا کہ ہیں سچ کے خریدار بہت
رہ گیا مال سبھی اس کی دکاں میں رکھا
یاد ہم آ نہ سکے جشن بہاراں میں اسے
ہم سفر جس نے ہمیں عہد خزاں میں رکھا
اک پرندہ بھی نہیں پیڑ پہ باقی گلزارؔ
تیر صیاد نے کس وقت کماں میں رکھا