اختر شیرانی کی رومانیت

اخترؔ شیرانی کی شاعری کے متعلق رائے دیتے ہوئے غالباً خام کار اور پختہ کار دونوں قسم کے نقاد سب سے پہلے اسی حقیقت پر زور دیں گے کہ وہ ایک رومانی شاعر تھے۔ رومانیت ایک ایسا مبہم تصور ہے کہ اس کے صحیح عناصرِ ترکیبی کا پتہ لگانے میں دشواریاں ہیں کیوں کہ شخصی میلانات تمام رومان پسندوں کو ایک ہی دائرے میں رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف بنا دیتے ہیں۔ قوس قزح کے کمان پر رقص کرتے ہوئے اور شفق کی نیچی اونچی وادیوں میں اترتے ہوئے کوئی رنگینیوں میں کھوکر رہ جانا چاہتا ہے، کوئی انسانی حسن کے بغیر کائنات و نامکمل سمجھتا ہے، کوئی محبوبہ کے جسم کو اس طرح چھونا چاہتا ہے جیسے رنگ وبو کی لہروں کو نسیمِ سحر کے جھونکے چھوتے ہیں۔ کوئی اسے آغوش میں اس طرح بھینچ لینا چاہتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے میں حل ہو جائیں۔


رومانیت مختلف بھیس بدلتی ہے۔ اس کی یک رنگی میں بھی تلون طبعی کے انداز نظر آتے ہیں اور رومانی کی بے قرار روح کبھی فطرت کو بھی بے قرار دیکھنا چاہتی ہے، کبھی فطرت کی جستجو کرکے اپنی بے قرار روح کو تسکین دینا چاہتی ہے۔ ہر رومانی نئی راہوں پر چل کر اپنی دنیا بناتا ہے اور سماج سے ناآسودگی کے وہ اجزا لے لیتا ہے جن کی رگوں میں وہ آزاد خیالی اور پرواز فکر کے سارے نشتر توڑ سکے۔ یہی چیز کسی کو ورڈ سورتھ بناتی ہے، کسی کو شیلیؔ، کسی کو ہائرنؔ بناتی ہے، کسی کو کیٹسؔ۔ اور یہی نہیں رومانی انداز نظر ہی سے روسوؔ کے نقطہ نظر کی تخلیق ہوتی ہے اور اسی سے شلیگل کا فلسفہ وجود میں آتا ہے۔


یہ سب رومانی ہیں اور سب ایک دوسرے سے مختلف۔ رومانیت کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں فرد کی قوت انتخاب اور رجحان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ورنہ ورڈ سورتھؔ کی مذہبیت اور شیلیؔ کی لا مذہبیت کو ایک ساتھ رکھنا ممکن نہ ہو سکےگا۔ تاہم دونوں میں جو اجزا مشترک ملیں گے، ان پر غور کرتے ہی یہ بات واضح ہو جائےگی کہ مختلف رومان پرست ایک دوسرے سے دور رہ کر بھی کچھ ایسا دور نہیں ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ ہر زمانے کے رومانیوں میں کئی باتیں ملتی جلتی ہیں اور اگر سماجی خصوصیات پر نظر نہ جائے تو ان کی انفرادیت ایک ہی قسم کی قدروں کو عزیز رکھتی دکھائی دیتی ہے۔


جمود کو توڑ دینا، نآآسودگی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنا، شدت احساس اور شدت تخیل کی مدد سے ایک حسین دنیا کی تعمیر کرنا، مادے کی لطافتوں کو اس طرح دیکھنا کہ وہ محض خیالی رہ جائیں، کرب اور بے قراری اور نئی دنیا کی جستجو، بھری بہار، محبوبہ کی آغوش، مسرتوں کی گود میں مر جانے کی خواہش یہ چیزیں نت نئے روپ میں ہر رومانی کے یہاں ملیں گی۔ اخترؔ شیرانی یکسر ایک رومانی شاعر ہیں۔ اس لئے رومانیت کے یہ اجزا ان کے یہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں انہیں کا تجزیہ مقصود ہے۔


ہندوستان کے سماجی ارتقا کی ایک خاص منز ل پر، سیاسی اداروں پر، آل انڈیا نیشنل کانگریس، مذہبی اور اصلاحی تحریکوں میں متعدد تحریکیں، خاص کر سرسید کی ہمہ گیر تحریک، ادبی تغیرات میں آزادؔ اور حالیؔ کی نیم اصلاحی، نیم باغیانہ جدوجہد نمایاں حقیقتیں ہیں جو ایک دوسرے کا عکس اور ایک دوسرے کا ضمیمہ ہیں۔ بیسویں صدی آتے آتے آزادی کی خواہش اور مغربی اثرات نے عمل کی دنیا سے دور ایک انتہا پسندانہ رومانوی اور تخئیلی انداز نظر بھی پیدا کر دیا تھا، جو کسی کے یہاں فطرت پرستی کے روپ میں، کسی کے یہاں مذہب سے بغاوت کی شکل میں، کسی کے یہاں تخئیلی رنگین بیانی اور والہانہ گم شدگی کے رنگ میں رونما ہوا۔


جو زنجیریں سیاسی اور سماجی جدوجہدمیں ٹوٹ سکتی تھیں، وہ خیالوں میں ٹوٹنے لگیں اور ابتدائی جدید شاعری ہی سے اقبالؔ، چکبستؔ، سرورؔ جہاں آبادی، عظمتؔ اللہ وغیرہ کی نظم نگاری اور مہدیؔ افادی، نیازؔ فتحپوری، سجاد انصاری، سجاد حیدر یلدرمؔ، میر ناصر علی، ریاضؔ خیرآبادی وغیرہ کی نثر نگاری نے تصور کی میناکاریوں سے محدود زندگی ہی میں نئے چمن کھلادئے اور ذوق ادب رکھنے والوں کو بغیر پلائے مست کردیا۔ آج وہ لے کسی قدر پرانی ہو چکی مگر اس وقت ان کے ادبی ساغر تمام نوجوانوں کو بے خود بنا رہے تھے۔ یوروپ اور بنگال کے نغموں کی آمیزش سے یہ شراب دو آتشہ اور سہ آتشہ بن جایا کرتی تھی۔ اس کی جڑیں زیادہ گہری نہ تھیں لیکن اوپر اوپر رنگینیوں کا وہ طوفان اٹھتا تھا کہ نوجوانوں کو بہالے جانے کے لئے وہ سیلِ بے پایاں بن جاتا تھا۔ ان جادوگروں میں سے بعض تو اپنی شعبدہ بازیوں کا کرتب دکھاکر تھوڑے دنوں کے اندر چلے گئے بعض کسی نہ کسی شکل میں دل کے ساتھ عقل پر چھا گئے اور ان کے سحر آفریں کرشمے آج بھی نظر بندی کر رہے ہیں۔


یقیناً بیسویں صدی کے ابتدائی دور کا یہ بہت ہی بھدا اور ادھورا اور کسی حد تک میکانکی تجزیہ ہے لیکن اس سے اس دور کی طرف ضرور ذہن کی رہنمائی ہو جاتی ہے جس نے جوشؔ، ساغرؔ، حفیظ اور اخترؔ شیرانی کو جنم دیا۔ اس وقت اس دور کی خصوصیات کا تذکرہ مقصود نہیں ہے کیوں کہ تاریخ کے صفحات پر بارہا اس کے خط و خال نمایاں کئے جا چکے ہیں۔ صرف اخترؔ شیرانی کی رومانیت کے حدود اور اجزائے ترکیبی پر نظر ڈالنا ہے۔ ان کی پرواز فکر کے مادی محرکات تلاش کرنے ہیں اور سماجی عقبی زمین کا پتہ لگانا ہے جس نے ان کی تخئیل میں صداقت کا رنگ پیدا کیا۔


شعرستان، نغمۂ حرم، صبحِ بہار، اخترستان اور لالہ طور کے سرسری مطالعہ سے بھی یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اخترؔ کی تخئیل جذبات کو محور بناکر اسی کے گرد گھومتی ہے۔ دوسرے مضامین یا موضوعات محض ضمناًآتے ہیں جوان دو بنیای تصورات کو سہارا دیتے ہیں۔ عشق اور آزادی یہ دو مرکزی تصورات ہیں۔ حسنِ فطرت، سحر نغمہ، وطن پرستی، یاد ماضی، اخلاقی مسائل اور وقتی تاثرات، انہیں تصورات کی آرائش کے لئے ان بنیادی محرکات کی جو جگہ ان کی شاعری میں ہے ان کا واضح ترین بیان ان کی رباعیوں میں ملتا ہے،


موسم بھی، عمر بھی، شباب بھی ہے
پہلو میں وہ رشکِ ماہتاب بھی ہے


دنیا میں اب اور کیا چاہیے مجھ کو
ساقی بھی ہے ساز بھی شراب بھی ہے


عشق و آزادی بہارِ زیست کاسامان ہے
عشق میری جان آزادی مرا ایمان ہے


عشق پر کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے


ایک رومانی کا نعرۂ عشق اور نعرۂ آزادی ہے۔ اس عشق میں افلاطونی محبت اور جنسی خواہش قرب کا امتزاج ہے اور اس آزادی میں انفرادی آزادی اور انسان دوستی کے عام جذبے کا میل ہے۔ اس لئے ان تصورات کا کوئی غیرمبہم اور قطعی تجزیہ نہ ہو سکے لیکن ان کی حدوں کو چھو لینا ہمیں اخترؔ کے خیالات کی اس رنگین وادی میں پہنچائےگا جہاں سلمیٰ اور ریحانہ کی محبت ہی سب کچھ ہے اور جہاں ضرورت ہو تو آزادی کے لئے عشق کی قربانی بھی گوارا کی جا سکتی ہے۔ اس جگہ یہ بتانا بہت آسان نہیں ہے کہ یہ آزادی جس پر عشق کو بھی فدا کیا جا سکتا ہے، صرف عشق کرنے کی آزادی ہے یا بنی نوع انسان کی آزادی، جومحض عشق کی قربانی سے ہاتھ نہیں آتی۔


اخترؔ شیرانی کی تخئیل کا رہنما عشق ہے۔ وہ عشق جو کپوپڈؔ کی خوبصورت کمان کے رنگین اور دلدوز تیر کا زخم کھا کر پیدا ہوتا ہے۔ اس طفل حسین کی رہبری میں وہ محبت کی اس دنیا میں پہنچ جانا چاہتے ہیں جہاں مادی زندگی کی کثافتیں، تکلیفیں، ناآسودگیاں اور ناتمامیاں ان کے دامن کو نہ چھو سکیں۔ ایک ایسی دنیا میں جس میں انسان نہ بستے ہوں جو نور اور طور کی وادی ہو جس میں صرف تنہائی کا راج ہو، جو خوابوں کے جال سے بنی ہوئی ہو۔ کیوپڈؔ اندھا ہے۔ خبر نہیں وہ اس دنیا تک لے بھی جا سکتا ہے یا نہیں لیکن تخئیل انسانی میں بڑی طاقت ہے۔ وہ حقیقتاً اورعملاً نہ سہی تصور میں ایسی دنیا کی تخلیق کر سکتا ہے اور اس سے آسودگی بھی حاصل کر لینا کچھ ایسا مشکل نہیں ہوتا، اگر رومانیت پسند یہ کر سکے تو اس کی دنیا تباہ ہو جائے۔ یہی سبب ہے کہ جب اخترؔ شیرانی اس جانی بوجھی دنیا کے غم والم کا احساس کرتے ہیں تو ان کے یہاں وہی گداز، وہی یاس کے پہلو نظر آتے ہیں جو غمِ عشق اور غم روزگار کا عطیہ ہیں۔


جیسا کہ عرض کیا گیا، اخترؔ شیرانی کا عشق افلاطونی اور جنس محبت دونوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے۔ اس کی ابتدا تو جنسی اور جسمانی محبت سے ہوتی ہے لیکن اس کی معراج تخئیلی محبت ہے جہاں محبوبہ سے زیادہ محبت کا دھیان آتا ہے، جہاں معشوقہ نہیں عشق سب کچھ بن جاتا ہے۔ اس چیز پر ایک حیثیت سے اور غور کیا جا سکتا ہے۔ سر زمین گجرات کی خوبصورت حور سلمیٰؔ، حسین غزالوں کی طرح وادیوں میں گل گشت کرنے والی ریحانہؔ اور مرمری جسم رکھنے والی عذراؔ جو شراب و شعر کی رنگین تفسیر تھی، ان سب کا ذکر والہانہ انداز میں بار بار آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مختلف ہستیاں ہیں یا ایک ہی ہستی کے مختلف نام ہیں ؟ اگر مختلف ہیں تو ان میں کوئی مخصوص تنوع نہیں۔ اگر ایک ہی ہیں تو کہیں یہ شاعر کے خیالوں کی دیوی تو نہیں؟


بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب مل جل کر ایک خیال بن گئی ہیں جسے شاعر محض اپنی پرواز فکر سے چھوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اصل محبوبہ وہ ہے جسے صرف ایک بار دیکھا تھا اور جس کی جھلک دیکھنے کی تمنا تھی، باقی اسی کا عکس ہیں۔ ان معموں کا حل کرنا اس لئے مشکل ہے کہ کہیں کہیں تو یہ ماہ پیکر لڑکیاں بستیوں اور وادیوں میں مرئی حسن کا مجسمہ بن کر شادابیاں بکھیرتی ہوئی آتی ہیں اور شاعر کو بدنام کرتی ہیں اور کہیں خیال و خواب کا پیکر اختیار کرکے شاعر کو افق کے اس پار سے اپنے پاس بلاتی ہیں اور وہ عشق سے التجا کرتا ہے،


اے عشق ہمیں لے چل، اک نورکی وادی میں
اک خواب کی دنیا میں، اک طور کی وادی میں
حوروں کے خیالات مسرورکی وادی میں
تاخلد بریں لے چل، اے عشق کہیں لے چل!


سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل اے عشق کہیں لے چل!


الفاظ پر غور کیجئے تو کہیں یہ دنیا حقیقی معلوم ہوتی ہے، کہیں محض خواہشات کی آفریدہ۔ یوں حقیقت جذبات کے طوفان میں کھو جاتی ہے اور شاعر محض اظہار محبت کا متوالا نظر آنے لگتا ہے۔ پرخلوص، جوان، تازہ کار اور زندگی کو حسین بنا دینے والی محبت، اس محبت میں سماج کے ڈر سے دبی ہوئی آہیں بھی ہیں لیکن اس کا اظہار خطروں سے پاک ہے۔ اخترؔ کی زبان پر ہر وقت سلمیٰ اور ریحانہؔ کے نام ہیں۔ شایداس بے باکی سے محبوبہ کا نام کسی اور شاعر نے لیا ہوگا؟ اسے اس طرح نہ پیش کیا ہوگا کہ پڑھنے والے بھی اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں۔ اگریہ صحیح ہے کہ نظیرؔ اکبرآبادی نے موتی سے محبت کی، مومنؔ نے صاحب سے دل لگایا اور غالبؔ نے ایک ستم پیشہ ڈومنی کو چاہا تو یہ بھی درست ہے کہ ایسا والہانہ اور عاشقانہ اظہار بھرپور شکل میں ان کے یہاں نہیں ملتا۔ اخترؔ شیرانی کے وقت تک دنیا اتنی بدل چکی تھی کہ محبوبہ کا نام زبان پر لایا جا سکتا تھا، وہ فرضی اور رومان و تخیل کے پردوں میں چھپا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔


یہ جو کہا گیا ہے کہ محبوبہ سے زیادہ اس کی محبت کا اظہار اہمیت اختیار کر لیتا ہے، اس کی غمازی ایک نظم‘‘ گجرات کی رات‘‘ کے نفسیاتی تجزیے سے بھی ہوتی ہے جس کا پہلا شعر یہ ہے،


آج قسمت سے نظر آتی ہے برسات کی رات
کیا بگڑ جائےگا رہ جاؤ یہیں رات کی رات


اور دوسرا شعر ہے،


ان کی پا بوسی کو جانا تو صبا کہہ دینا
آج تک یاد ہے وہ آپ کے گجرات کی رات


پہلے شعر میں محبوبہ سے مخاطب ہے، گویا وہ موجود ہے اور باقی تمام اشعار میں وہ کہیں اور ہے کیوں کہ اس کے پاس صبا کے ذریعہ پیام بھیجنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اسے آپ غلطی کہہ لیجئے لیکن میں اسے غلطی کے بجائے خواہش پرستی اور حقیقت کی وہ آمیزش کہتا ہوں جو ایک رومانی کے یہاں پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کی یہ خواہش کاش محبوبہ ہوتی لمحہ بھر کے لئے، محبوبہ کو مجسم کرکے اس کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے اور جب وہ مجسمہ غائب ہو جاتا ہے تو شاعر ’’بات کی رات‘‘ اور ’’رات کی بات‘‘ کا خیال کرکے سلمیٰ کی یاد سے اپنا جی بہلانے کے لئے اور صبا کے ذریعہ اس کے پاس پیام بھیجنے لگتا ہے۔


مختصر یہ کہ اخترؔ کا عشق مادی محبت سے شروع ہوکر تخئیلی ہو جاتا ہے اور جب دنیا یا سماج کی طرف سے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اخترؔ اپنی محبوبہ اور محبت کو لئے ہوئے ایک اور دنیا میں چلے جانا چاہتے ہیں جہاں انہیں محبت کی آزادی ہو۔ اکثر رومان پسندوں کی طرح ان میں بھی سماج کے بدلنے کی خواہش نہیں، اس سے ہٹ کر جانے کی خواہش پائی جاتی ہے۔


یہیں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اخترؔ شیرانی کی شاعری کا کوئی سماجی پس منظر بھی ہے؟ اور اس سوال کا جواب بھی مشکل ہے کیونکہ بعض نظموں میں اخترؔ نے سماج کی بعض پابندیوں اور روایتوں سے اختلاف کیا ہے لیکن زیادہ تر ان کی دنیامیں سماجی احساس مفقود ہے۔ صرف وہ سماجی قیود جن سے محبت کی روح گھٹتی معلوم ہوتی ہے، ان کے غصے کا نشانہ بنتے ہیں۔ ورنہ ان کی کائنات عشق میں طبقے نہیں ہیں، زیردست پر زبردست کے مظالم نہیں ہیں، اقتصادی اور معاشی جھگڑے نہیں ہیں، ناانصافیاں نہیں ہیں، دنیا گندگیوں، بے ایمانوں، ریاکاریوں سے بھری معلوم ہوتی ہے لیکن یہ کس قسم کی ناانصافیاں اور غلاظتیں ہیں، ان کا واضح شعور اخترؔ کو نہیں۔


بالعموم ان کا ذکر محبت کے سلسلے میں آتا ہے اور اسی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سماج کی خرابیوں کا احساس بھی ان کے تصور عشق سے وابستہ ہے۔ اخترؔ شیرانی نے نہ جانے کتنی جگہ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی دنیا محبت کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایک ’’گل رخ‘‘ نے پوچھا ہے کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں؟ اخترؔ نے اپنا مشغلہ بتاتے ہوئے ایک طویل نظم لکھی ہے۔ ’’میرا موجودہ مشغلہ۔‘‘ اس کے یہ اشعار قابل غور ہیں،


ادب سے جاکے کہنا اے صبا اس شوخ پر فن سے
کہ رومان اور محبت مشغلہ ہے میرا بچپن سے


محبت کے لئے آیا ہوں میں دنیا کی محفل میں
محبت خون بن کر لہلہاتی ہے مرے دل میں


ہر اک شاعر مقدر اپنا اپنے ساتھ لایا ہے
محبت کا جنوں تنہا مرے حصے میں آیا ہے


محبت ابتدا میری، محبت انتہا میری
محبت سے عبارت ہے، بقا میری فنا میری


محبت آرزو میری، محبت جستجو میری
محبت خامشی میری، محبت گفتگو میری


خدا تک ہر چیز کو محبت ہی کہنے کے بعد خاتمہ کے قریب یہ معنی خیز شعر آتا ہے،


میں اس دھن میں مکان و لامکاں کو بھول جاتا ہوں
خیال گلستاں میں گلستاں کو بھول جاتا ہوں


محبت کی یہی گمشدگی ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ خیال عشق میں محبوبہ کا خیال نہ رہے اور محبوبائیں صرف تخئیل کی دیویاں بن جائیں۔ جیسا کہ اپنی مشہور نظم‘‘ نغمہ بہار‘‘ میں انہوں نے کہا ہے،


اس طرح اس ارمِ خواب نما میں اخترؔ
اپنے افکار کی عذراؤں کو عریاں کر دیں


یہ تو تھی اخترؔ شیرانی کی محبت۔ ان کی شاعری میں آزادی بھی ایک مرئی دیوی بن کر سامنے آتی ہے۔ ان کی کئی نظمیں وطن پرستی کے جذبے سے معمور ہیں۔ کئی نظموں میں آزادی کے نغمے گائے گئے ہیں، لیکن کہیں مقصود آزادی واضح نہیں۔ شیرواں کے رہنے والے افغانی النسل اخترؔ کا افغانستان کے کہساروں سے ایک دلی تعلق نظر آتا ہے۔ جب امان اللہ کے زمانے میں انقلاب ہوا اور کچھ دنوں کے لئے بچہ سقہ کی حکومت قائم ہو گئی، اس سے اختر کادل بہت دکھا۔ عاشقانہ موت یعنی قندھار چل اور ’’فتح کابل‘‘ میں اس جذبہ کا اظہار ہے۔ ’’ساقی تلوار اٹھا‘‘ میں بھی یہی جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔ اس موقع پر انگلستان کے رومانوی شاعر بائرنؔ کا خیال آتا ہے جو یونان کو ترکوں سے آزاد کرانے کے لئے بے چین تھا۔


بائرنؔ کا طبقاتی شعور اور سرزمین یونان سے رومانیوں کی دل بستگی واضح تصورات ہیں، جن کے آئینہ میں بائرنؔ کا جذبۂ آزادی سمجھ میں آتا ہے، لیکن اخترؔ کے یہاں یہ بات اچھی طرح نمایاں نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ ’’خاتمہ جنگ‘‘ پر اخترؔ نے جو نظم لکھی ہے اس میں بھی سیاسی سوجھ بوجھ کا پتہ نہیں چلتا۔ تاہم ان نغموں سے جو بات ظاہر ہوتی ہے، وہ ان کی وطن دوستی اور آزادپسندی کا جذبہ ہے جس میں ریاکارانہ سیاسی جتھہ بندی کے خیالوں کی آمیزش نہیں ہے۔ ان کے جنگی ترانے میں خلوص ہے، گو سیاسی شعور نہیں ہے اور ایک رومانی شاعر کا خلوص ہی اس کے کردار اور خیال کے متضاد پہلوٍؤں میں کیف، یک رنگی اور صداقت پیدا کرتا ہے۔ رومانی روایتوں کو توڑتا بھی ہے اور روایتوں میں گرفتار بھی ہوتا ہے۔


یہ بات اس کے شعور اور آگہی پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی روایتوں کو برقرار رکھےگا اور کس قسم کی روایتوں سے بغاوت کرےگا اور چونکہ شدت احساس اور شدت تخئیل ہی اس کے حربے ہیں اس لئے جو بات اس کے ذہن میں سما جاتی ہے، وہ اس کا اظہار کر دیتا ہے چاہے وہ اس کے دوسرے خیالات سے تضاد ہی کیوں نہ رکھتی ہو۔ اخترؔ بھی اظہارِ عشق میں بے باک اور جری ہونے کے باوجود قدیم اخلاقی روایات کو ٹھکرا نہیں سکے۔ ان کا طوائف کا تصور روایتی اور غیر سماجی ہے۔ اخلاق کے نظریات تقریباً فرسودہ ہیں۔ ایک طرف عشق و محبت کی آزادی کا جوش ہے دوسری طرف عورت کو پردہ میں رکھنے کی حمایت بھی وہ شاعرانہ دلیلوں سے کرتے ہیں،


جب ہر اک طرفہ لطافت ہے نہاں پردے میں
پھر برا کیا ہے جو عورت ہے نہاں پردے میں


ایک مذہبی فضا ان کے احساس پرچھائی ہوئی ہے جو گناہ اور بدی کا بھوت بن کر ان کی راہ میں حائل ہوتی ہے اور انہیں تقدس اور معصومیت کا راز بتانے پر اکساتی ہے اور یہ واعظانہ رنگ ان کی رومانی شاعری سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ ان کی رومانیت اسی مذہبی اثر کی وجہ سے گناہ کی ہیبت کے سامنے پسپا ہو گئی اور یہ گناہ کچھ بڑے معاشرتی گناہ نہیں ہیں جن سے وہ لرزہ براندام ہیں بلکہ صرف محبت اور ہوس کی زندگی سے تعلق رکھنے والے احساسات اور اخلاقی تصورات ہیں۔ ایسے مقامات پر ان کے تصور میں بھی رسمیت پائی جاتی ہے اور اس کے اظہار میں بھی۔


ایک جذباتی اور تخئیل پرست رومانی شاعر سے کسی مخصوص نظامِ فکریا پیام کی آرزو بے معنی سی بات ہے۔ اخترؔ کی شاعری میں نہ تو فلسفیانہ گہرائی ہے اور نہ عظمتِ انسانی، ہستی کے بڑے معموں نے انہیں پریشان بھی نہیں کیا ہے۔ رازِ کائنات جان لینے کی پیاس نے انہیں تڑپایا بھی نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی عشق میں مرکوز ہو گئی اور اس کے گرد خوابوں کے محل کھڑے کر لئے۔ سلمیٰؔ اور ریحانہؔ کے حسن سے ہم آہنگی رکھنے والی دنیا کی تخلیق کرنے سے انہیں فرصت ہو تو دوسروں کے دکھ درد پر بھی نگاہ جائے مگر یہاں تو ہر وقت سلمیٰؔ پہلومیں ہے یا اس کی یاد!


اخترؔ شیرانی کی شاعری ایک بے فکر نوجوان کے جذباتی ابال کی ترجمان ہے۔ جیسے ہی اس میں غم زندگی کی یا مسائل حیات کی آمیزش ہوتی ہے اس کا رنگ پھیکا اور اثر ہلکا ہونے لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی شاعری افادیت سے خالی یا بے کیف ہے بلکہ اس کے برعکس اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اخترؔ کی انفرادیت سماجی اور اجتماعی زندگی کی نفی نہیں کرتی۔ ان کے یہاں اپنی دنیا الگ بسانے کی خواہش تو ہے لیکن ان کا ذہن بیمار نہیں ہے۔ ان کی تخئیل مردہ اور بے کیف نہیں ہے۔ محبت کرنے، زندہ رہ کر کچھ کر جانے اور آزادی کے لئے محبت تک کو قربان کردینے کا جذبہ آسانی سے نظر انداز کئے جانے کی چیز نہیں ہے۔ ان کے دل میں بدی نہیں۔ شراب کے نشہ ہی میں سہی وہ یہ خواہش رکھتے ہیں،


عظمتِ فقر کے رخشندہ جمالوں کی قسم
ذرّرے ذرّے کو حریفِ مہِ تاباں کر دیں


بے نوایان درِپیر مغاں کو ہمدم
قیصر عالم و شاہنشہ دوراں کر دیں


منتظر عالمِ نو کا ہے جہانِ کہنہ
شب تیرہ سے عیاں صبح درخشاں کر دیں


وہ خود رومانی اور تصور پرست تھے۔ ان خواہشوں کو عملی جامہ پہنانا ان کے بس میں نہ تھا مگر اس کی طرف اشارہ کر کے انہوں نے دوسروں کو روشنی ضرور دکھا دی ہے۔


اخترؔ شیرانی کی نظمیں پڑھتے ہوئے اکثر ان کی رومانیت اور دوسرے رومانی شعراء کے انداز فکر اور انداز بیان سے مختلف نظر آتی ہے۔ ان کے سازکے تاروں کی جھنکار، سروں کے اتار چڑھاؤ، آواز کے تال اور سم سے ایک نغماتی فضا پیدا ہو جاتی ہے اور میں تلاش کرنے لگتا ہوں کہ اس میں یہ رس اور کیفیت کہاں سے آئی ہے؟ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اخترؔ کو سلمیٰؔ، ریحانہ اور عذراؔ کا تصور عربی شاعری سے ملا۔ نام لے کر اظہار محبت کا طریقہ وہیں سے حاصل ہوا۔ یہ روایت عربی ادب ہی میں سب سے زیادہ ملتی ہے۔ ریحانہؔ کا ’’بدوی حسن‘‘ اور اخترؔ کا ’’بدویت کے عاشق‘‘ اور صحرائیت سے بے خود ہونے کااعتراف بھی ذہن کو ادھر ہی منتقل کرتے ہیں۔ اخترؔ شیرانی کی شاعری پر عربی ادب کے اثرات براہ راست تو زیادہ نہیں ملتے لیکن جمالِ سلمیٰ میں اس اثر کا واضح اظہار بھی ہو جاتا ہے۔ اس طرح میرا خیال ہے کہ محبت کا یہ طریقہ عربی شاعری سے ان کے ہاتھ آیا اور عجمی شاعری نے انہیں رنگینی، عمومیت، عینیت اور کیف کی دولتیں عطا کیں۔


انگریزی شاعری کا اثربہت زیادہ نہیں معلوم ہوتا لیکن پاؤں کے زخمی ہونے پر وہ بائرنؔ بننے کی تمنا کا اظہار کرتے ہیں (اور بائرنؔ سے ان کی مشابہت کی طرف اشارہ کر چکاہوں۔ ) افغانی کے جذبہ آزادی اور الہڑپن نے ان کے تصورات میں سپاہیانہ بانکپن کا اضافہ کیا۔ ہندوستان نے موسیقی کے علاوہ انہیں ایک ہلکا سا باغیانہ میلان دیا، جو مختلف قسم کے سماجی قیود کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ اسلام سے انہوں نے اخلاقی نقطہ نظر لیا اور اس طرح ان کی رومانیت نے اس سارے مواد سے محبت اور آزادی کے اس رنگین خواب کی، جس میں حسن ہے اور سچائی، توانائی ہے اور لطافت، لذت ہے اور اضطراب، یہ خواب حسن و عشق ہی کے معاملات سے بھرا ہوا ہے اور اس کی تعبیر بھی وہی ہے۔ یہی چیزیں اخترؔ شیرانی کی شاعری کا انفرادی رنگ بنتی ہیں جسے ان کے فنی شعور نے خوبصورت نغموں میں ڈھال لیا ہے۔


جذباتیت تغزل کی خالق ہے اور تغزل ہی اخترؔ کی شاعری کی روح ہے۔ ان کی شاعری کا بہت کچھ انحصار ان کے نغمہ بار طریقہ اظہار پر ہے۔ یہاں ان کی شاعری اور فن کی خصوصیتوں کا تذکرہ مقصود نہیں ہے لیکن ان کی نظموں کی موسیقیت، روانی، جھنکار، بہاؤ، مصوری اور لطافت کا احساس کئے بغیر ان کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کا پورا حق ادا نہ ہو سکےگا۔ داخلیت کے اظہار کے لئے انہیں فنی اسباب کی آرائش کی ضرورت ہے اور وہ خارجیت جو اخترؔ شیرانی کے یہاں پائی جاتی ہے، وہ بھی جب تک ان کے داخلی احساس کا جزو نہیں بن لیتی، ایک دفعہ ان کے جذبات کی رنگینیوں میں ڈوب کر اچھی طرح اس کا رنگ قبول نہیں کر لیتی، ان کے ساز سے نغمہ بن کر نہیں نکلتی۔


وہ گہرے رنگوں سے نقوش ابھارتے ہیں اور بدنمائی کے بدلے ان میں حسن پیدا کر دیتے ہیں کیونکہ خلوص کی شدت سے ان کا موقلم جذبات انگیز تصویریں بناتا ہے اور اخلاقی تصورات جنہیں وہ ٹھیک سے جذب نہیں کر سکے، ہمیشہ روکھے پھیکے اشعار کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ لیکن محبت کے وہ گیت جو وہ سوتے جاگتے گاتے ہیں، رنگ و نور کی لہروں کی لرزش سے رنگین اور پرکیف بن جاتے ہیں۔


ظاہر ہے کہ حافظؔ و خیامؔ کے فلسفہ سے ترتیب پایا ہوا ذہن اور اندھے کیوپڈؔ کی رہنمائی میں قدم اٹھانے والا زندگی کی پرپیچ راہوں میں ہمیں دور تک نہیں لے جا سکتا تھا لیکن یہی کیا کم ہے کہ اخترؔ شیرانی نے جوانی اور محبت کے دل کی دھڑکنیں اپنی نظموں میں قید کر لیں اور عشق کے پرجوش والہانہ گیت گائے۔ انہوں نے اپنی شاعری سے کبھی سماجی بے عنوانیوں کی حمایت کی اور نہ کبھی آزادی کے خلاف نغمے چھیڑے۔ انہوں نے محبت اور آزادی کے لئے مرمٹنے کا پیام دیا۔ اگرچہ اسے آج کی سماجی اور سیاسی کشمکش میں پیام کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔


انہوں نے اردو شاعری کو نئے انداز اور نئے فنی شعور کی دولت عطا کی جس کو ہماری جدید شاعری کے ارتقاٍٍء میں ہمیشہ اہم جگہ دی جائےگی۔ شاید اب اردو میں ایسے رومانی شاعر پیدا نہیں ہوں گے، لیکن آنے والی نسلیں اپنی امنگوں اور اپنے نصب العین کے اظہار کے لئے اخترؔ کی شاعری سے بیباکی، جرأت، والہانہ پن، موسیقی اور کیف مستعار لیتی رہیں گی اور بہت سے نوجوان عمر کی اس منزل میں جب ’محبوبہ گمشدہ‘، ’خوابِ جوانی‘ اور ’آسمانی حور‘معلوم ہوتی ہے، ان کی نظمیں گاتے اور اشعار پڑھتے رہیں گے کیوں کہ جس عشق کے وہ متمنی ہیں وہ ایک پابند جذبہ ہے،


وہ عشق پیشہ ہوں میں جس کے جوان نغمے
گاتا ہے چاندنی میں ہر نوجوانِ صحرا