اخلاق

مسٹر ایڈیسن کا قول ہے کہ مذہب کے دو حصے ہو سکتے ہیں، ایک اعتقادیات دوسرا عملیات۔ مسٹر ایڈیسن کی غرض اعتقادیات سے صرف وہ مسائل ہیں جو وحی سے معلوم ہوئے ہیں اور جو عقل سے یا کارخانہ قدرت پر غور کرنے سے معلوم نہیں ہو سکتے، مگر ہم کو ان کے اس بیان سے کسی قدر اختلاف ہے۔ ہم اعتقادیات ان مسائل کو کہتے ہیں جن کا ہونا عقل و نیچر، یعنی کارخانہ قدرت کے اصول پر نا ممکن نہیں ہے، الا ہم ان دونوں کی بنا پر ان کے ہونے کا یقین نہیں کر سکتے تھے، وحی نے صرف ان کے ہونے پر جب و ہ ہوں ہم کو یقین دلایا ہے یا ان کا ہونا بتلایا ہے۔ ہم نے اس مقام پر حرف تردید کو اس لیے استعمال کیا ہے ہم کو اس بات میں شبہ ہے کہ ان مسائل پر جن کو ہم نے اعتقادیات میں داخل کیا ہے، یقین لانا جزو ایمان ہے یا نہیں۔ عملیات میں مسٹر ایڈیسن نے ان مسائل کو داخل کیا ہے جن کی عقل و نیچر کے مطابق مذہب نے بھی ہدایت کی ہے۔ پس وہ پہلے حصے کا نام عقائد رکھتے ہیں اور دوسرے حصے کا نام اخلاق۔


پھر وہ لکھتے ہیں کہ ہم اکثر لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اعتقادیات پر اس قدر خیال کرتے ہیں کہ اخلاق کو بالکل بھول جاتے ہیں اور بعضے اخلاق پر ایسے متوجہ ہوتے ہیں کہ اعتقادیات کا کچھ خیال نہیں کرتے۔ صاحب کمال آدمی کو ان دونوں میں سے کسی بات میں ناقص نہ رہنا چاہیے۔ جو لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہر ایک سے کیا کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ دل سے ہمارے اس بیان کی تصدیق کریں گے۔


افسوس ہے کہ اس مقام پر بھی مجھ کو مسٹر ایڈیسن سے کچھ تھوڑا سا اختلا ف ہے۔ پچھلا حصہ ان کے اس مضمون کا نہایت سچ ہے، مگر پہلے حصے میں کچھ غلطی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اعتقادیات میں اور عملیات میں جس کو مسٹر ایڈیسن اخلاق کہتے ہیں، کچھ علاقہ نہیں ہے۔ انسان اعتقادیا ت پر کتنا ہی زیادہ خیال کرے اس کے اخلاق میں کچھ تفاوت نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اخلاق پر کیسا ہی متوجہ ہو اس کے اعتقادیات میں کچھ نقصان نہیں آ سکتا، کیونکہ یہ دونوں کام دو جدا جدا آلوں اور دو جدا جدا شخصوں سے متعلق ہیں، پہلا ہمارے دل یا ہماری روح اور خدا سے، دوسرا ہماری ظاہری حرکات اور جذبات اور انسان سے۔


پھر وہ لکھتے ہیں کہ گو مذہب، اخلاق اور اعتقاد پر منقسم ہے اور ان دونوں میں خاص خاص خوبیاں ہیں، مگر اخلاق کو اعتقاد پر اکثر باتوں میں ترجیح ہے۔


(۱) کیونکہ اخلاق کی اکثر باتیں نہایت صحیح اور بہت مضبوط ہیں، یہاں تک کہ اگر اعتقاد بالکل قایم نہ رہیں تب بھی وہ باتیں (یعنی اخلاق کے مسائل) بدستور قائم رہتی ہیں۔


(۲) جس شخص میں اخلاق ہے اور اعتقاد نہیں وہ شخص بہ نسبت اس شخص کے جس میں اعتقاد ہے اور اخلاق نہیں انسان کے لیے دنیا میں بہت زیادہ بہتری کر سکتا ہے اور میں اس قدر اور زیادہ کہتا ہوں کہ انسان کے لیے دین اور دنیا دونوں میں بہت زیادہ بھلائی کر سکتا ہے۔


(۳) اخلاق انسان کی فطرت کو زیادہ کمال بخشتا ہے، کیونکہ اس سے دل کو قرار و آسودگی ہوتی ہے، دل کے جذبات اعتدال پر رہتے ہیں اور ہر ایک انسان کی خوشی کو ترقی ہوتی ہے۔


(۴) اخلاق میں ایک نہایت زیادہ فائدہ اعتقاد سے ہے کہ اگر وہ ٹھیک ٹھیک ہوں تو تمام دنیا کی مہذب قومیں اخلاق کے بڑے بڑے اصولوں میں متفق ہوتی ہیں، گو کہ عقائد میں وہ کیسی ہی مختلف ہوں۔


(۵) کفر سے بھی بد اخلاقی عمدہ بدتر ہے یا اس مطلب کو یوں کہو کہ اکثر لوگوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک نیک چلن نپٹ جاہل وحشی جس کو خدا کی باتوں کی کچھ خبر بھی نہیں پہنچی نجات پا سکتا ہے، مگر بد چلن معتقد آدمی نجات نہیں پا سکتا۔


(۶) اعتقاد کی خوبی اسی میں ہے کہ اس کا اثر اخلاق پر ہوتا ہے۔ اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ اعتقاد کی، یعنی خدا کے دیے ہوئے مذہب پر ایمان رکھنے کی خوبیاں کیا ہیں تو کیا ہم کو اس بات کی صحت جو ہم نے ابھی بیان کی بخوبی معلوم ہو جاوے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کی خوبیاں ان باتوں میں ہیں جن کو میں بیان کرتا ہوں۔


(۱) اخلاق کی باتوں کو سمجھنا اور ان کو اعلیٰ درجے پر پہنچانا۔


(۲) نیک اخلاق پر عمل کرنے کے لیے نئے نئے اور قوی اغراض کو بہم پہنچانا۔


(۳) خدا کی نسبت عمدہ خیالات پیدا کرنا اور اپنے ہم جنسوں سے اچھا برتاؤ کرنا جس سے آپس میں محبت زیادہ ہو اور خود انسان اپنی سچی حالت کو، کیا بلحاظ اپنے نیچر کی خوبی کے اور کیا بلحاظ اس کی بدی کے بخوبی سمجھے۔


(۴) برائی کی برائیوں کو ظاہر کرنا۔


(۵) نجات کے لیے نیک اخلاق کو عام ذریعہ ٹھہرانا۔


مذہب کی خوبیوں کا یہ ایک مختصر بیان ہے، مگر جو لوگ اس قسم کے مباحثوں میں مشغول رہتے ہیں وہ نہایت آسانی سے ان خیالوں کو ترقی دے سکتے ہیں اور مفید نتیجے ان سے نکال سکتے ہیں، مگر میں یقینا ًکہہ سکتا ہوں کہ ان سب باتوں کا ظاہر نتیجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اخلاق میں کمال حاصل نہیں کر سکتا جب تک اخلاق کو عیسائی مذہب کو سہارا نہ ہو۔ یہ قول مسٹر ایڈیسن کا ہے۔ مگر میں یہ کہتا ہوں کہ کوئی اعتقاد یا کوئی مذہب سچا ہو ہی نہیں سکتا جس کا نتیجہ اخلاق کی عمدگی نہ ہو۔ پس اخلاق کو کسی مذہب کا کچھ سہارا درکار نہیں ہے بلکہ مذہب یا اعتقاد کے سچ سمجھنے کو اخلاق کا سہارا درکار ہے۔


مسٹر ایڈیسن اور بھی دو ایک اصو ل قائم کرتے ہیں جو اس گفتگو سے علاقہ رکھتے ہیں۔


(۱) وہ کہتے ہیں کہ ہم کو ایسی بات کو اعتقاد کی جڑ نہ قرار دینا چاہیے جس سے اخلاق کو استحکام اور ترقی نہ ہوتی ہو۔


(۲) کوئی اعتقاد صحیح بنیاد پر ہو ہی نہیں سکتا جس سے اخلاق خراب یا ان میں تنزل ہوتا ہو۔


یہ دونوں اصول مسٹر ایڈیسن کے ایسے عمدہ ہیں کہ دنیا میں کوئی شخص جس کے دل کی آنکھ خدانے اندھی نہ کی ہو ان سے انکاری نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد مسٹر ایڈیسن انہیں اصولوں پر اور ایک مسئلہ متفرع کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تمام مشتبہ مقاموں میں ہم کو نہایت غور کرنی چاہیے کہ اگر بالفرض وہ غلط ہو تو اس سے کیا کیا بد نتیجے پیدا ہو سکتے ہیں، مثلا ً اپنے ایمان کے مضبوط کرنے اور خیالی ثواب حاصل کرنے کی امنگ میں لوگوں کو تکلیف دینا، لوگوں کے دلوں میں رنج اور نفرت، غصہ اور عداوت پیدا کرنا اور جس چیز پر ان کو اعتقاد نہیں ہے زبردستی ان سے قبول کروانا۔ ایسے جذبات میں ہم اسی پر بس نہیں کرتے، بلکہ ان سب باتوں کے سوا ہم ان کو دنیا کے فائدے اور خوشی سے بھی محروم کرتے ہیں۔ ان کے جسم کو تکلیف دیتے ہیں، ان کی دولت کو خراب کرتے ہیں، ان کی ناموریوں کو خاک میں ملا دیتے ہیں، ان کے خاندانوں کو برباد کرتے ہیں، ان کی زندگیوں کو تلخ کر ڈالتے ہیں، یہاں تک کہ آخر کار ان کو مار ڈالتے ہیں۔


پس جب کسی مسئلے سے ایسے بد نتیجے نکلیں تو مجھ کو اس مسئلے کے مشکوک ہونے میں کچھ شبہ نہیں رہتا جیسے کہ علم حساب میں دو اور دو چار ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہوتا۔ پس ایسے مسئلے کو اپنے مذہب کی بنیاد نہیں ٹھہرا سکتا اور نہ اس پر عمل کر سکتا ہوں۔ اس قسم کے معاملات میں ہم صریح اپنے ہم جنسوں کو ضرر پہنچاتے ہیں اور جس مسئلے سے ہم ایسا کرتے ہیں بلا شبہ وہ مشکوک اور قابل اعتراض ہے، اخلاق اس سے بالکل خراب ہو جاتے ہیں۔


یہ مضمون مسٹر ایڈیسن کا غالبا ًعیسائی مذہب کے اس زمانے پر اشارہ ہے جب کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے میں دشمنی کی آگ بھڑک رہی تھی اور مرد اور عورت و بچے مذہب نہ ماننے پر آگ میں جلائے جاتے تھے اور نہایت بد بخت خون ریزیاں جو در حقیقت کرسٹانٹی کے بالکل خلاف تھیں، ہو رہی تھیں۔


لوگ خیال کرتے ہیں کو مسلمانوں کے مذہب میں بھی ایسا خوں خوار، امن اور اخلاق کے بر خلاف جہاد کا مسئلہ ہے۔ اگر وہ مسئلہ در حقیقت ایسا ہی ہو جیسا کہ بعض یا اکثر حقیقت تک نہ پہنچنے والے یا خود غرض لوگوں نے سمجھا ہے یا اکثر ظالم و مکار مسلمان حکمرانوں نے برتا ہے تو اس کے اخلاق کے برخلاف ہونے میں کون شبہ کر سکتا ہے مگر ہمارا اعتقاد یہ نہیں ہے، بلکہ جو حقیقت جہاد کی در حقیقت مذہب اسلام کی رو سے ہے وہ اخلاق کے بر خلاف نہیں ہے۔ اس میں کسی قسم کا جبر یا کسی کے مذہب کو بجبر چھڑانا یا مذہب کے لیے کس کا خون بہانا مطلق نہیں ہے۔ وہ صرف نیشنل لا پر، یعنی اس قانون پرجو مختلف قوموں کو آپس میں برتنا چاہیے، مبنی ہے اور جو آج کل مہذب سے مہذب قوموں میں جاری ہے۔ اس مسئلے کا ذکر ہم نے اپنی متعدد تصنیفات میں کیا ہے اور امید ہے کہ کبھی اس مضمون پر کوئی تحریر اس پرچے میں بھی چھاپیں گے۔


مسٹر ایڈیسن اپنے اس مضمون کو کسی مصنف کے نہایت عمدہ اور دل میں اثر کرنے والے کلام پر ختم کرتے ہیں اور وہ کلام یہ ہے، ’’آپس میں نفرت پیدا کرنے کو تو ہمارے لیے مذہب کافی ہے، مگر ایک دوسرے میں محبت پیدا کرنے کے لیے کافی نہیں۔‘‘ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ جو برتاؤ مذہبوں کا اس زمانے میں ہے وہ ایسا ہی ہے اور مسلمانوں کا برتاؤ سب سے زیادہ برا ہے، مگر سچے مذہب کا یعنی اسلام کا سچا مسئلہ یہ ہے کہ خدا کو ایک جاننا اور انسان کو اپنا بھائی سمجھنا، پس جو کوئی اس مسئلے کے بر خلاف ہے وہ غلطی پر ہے۔