اکیلا ہوں مگر آباد ہوں میں
اکیلا ہوں مگر آباد ہوں میں
قفس میں ہی سہی آزاد ہوں میں
مجھے دل میں لیے وہ گھومتا ہے
کہ اس کی ان کہی فریاد ہوں میں
یہ دنیا مقتلوں سے کم کہاں ہے
سبھی کے قتل سے ناشاد ہوں میں
مرے سینے پہ کس کے نقش پا ہیں
یہ کس کی ذات سے برباد ہوں میں
زمانہ شوق سے سنتا ہے مجھ کو
زمانے سے جڑی روداد ہوں میں
قطار مرگ میں ہوں سوچتا ہوں
کہ کس سے پہلے کس کے بعد ہوں میں