اکبر کی معنویت

فراق صاحب نے اکبر کو ایشیا کے بڑے شاعروں میں شمار کیا ہے۔ بہتوں کو یہ رائے مبالغہ آمیز محسوس ہوگی کہ ایشیا کیا، اردو کے بڑے شاعروں میں بھی اکبر کا نام عام طور پر نہیں لیا جاتا۔ اکبر کو شاعر کی حیثیت سے، بہر حال جو بھی جگہ دی جائے کم سے کم اس معاملے میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ ہماری تہذیبی تاریخ میں اکبر کی شاعری کا رول بہت اہم رہا ہے۔


اکبر کی شاعری بھی تاریخ اور تہذیب کے سیاق میں اپنی معنویت کا تعین کرتی ہے، حالی اور اقبال کی طرح۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اکبر کی بصیرت برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کے واسطے سے سامنے آتی ہے۔ انہوں نے اپنی روایت کو، اپنے عہد کو، اپنے معاشرے سے وابستہ امکان کو ایک ہندوستانی مسلمان کی نظر سے دیکھا۔ اکبر کی عام تصاویر ایک تنگ نظر، ملایانہ مزاج رکھنے والے ماضی پرست اور روایتی مڈل کلاس فرد کی ہے۔ بہ ظاہر اس میں کوئی کشش، روشنی کا کوئی نقطہ نطر نہیں آتا۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اکبر کا جو کلیہ بیان کیا ہے، وہ کچھ اس طرح ہے،


’’داڑھی کچھ چھوڑدی، جس کے اکثر بال سفید، چہرے میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو انہیں عام سے ممتاز کرتی۔ آنکھوں میں چمک البتہ تھی۔ آخری عمر میں صحت گر گئی تھی اور روز بیمار رہنے لگے تھے۔ طبیعت بڑی حساس واقع ہوئی تھی۔ گرمی، سردی، شوروغل ہر چیز کا اثر بہت زیادہ لیتے اور معمولی اور بےضرر غذاؤں سے بھی شدید نقصان کا وہم قائم کر لیتے۔۔۔ ذاتی حالات کے علاوہ ملکی و ملی انتشار بھی حضرت اکبر کی جمعیت خاطر کو پراگندہ کئے ہوئے تھا۔ دیکھ رہے تھے کہ مسلمان اپنے قدیم عقائد کو خیرباد کہہ کر تجدد، روشن خیالی، نیچریت اور فرنگیت کے سیلاب میں بہے چلے جا رہے ہیں اور ان کے سے ذکی الحس شخص کو اس سے قلق ہونا بالکل قدرتی تھا۔‘‘


’’غرض ان کی مستقل افسردگی اور مستمر غمگینی، متعدد اور گوناگوں ذاتی و ملی حالات کے مجموعے کا نتیجہ تھی۔ کوئی دوسرا ہوتا تو مزاج میں جھلاہٹ اور طبیعت میں چڑچڑاپن ضرور پیدا ہو جاتا۔ اکبر کے یہاں یہ کچھ نہ ہوا۔ البتہ ایک مستقل اداسی سی رہنے لگی اور غم غلط کرنے کا ایک نسخہ انہوں نے اپنی ظریفانہ شاعری کو بنا لیا،


سرد موسم تھا ہوائیں چل رہی تھیں برفبار
شاہد معنی نے اوڑھا ہے ظرافت کا لحاف۔‘‘
(نقوش، شخصیات حصہ اول)


گویا کہ اکبر کی بصیرت کا ظہور تاریخ کے المیاتی احساس کی تہہ سے ہوا ہے اور وہ اپنی اجتماعی اور شخصی روایت، افکار اور عقاید، اپنے مہیب اور دور رس معاشرتی وسوسوں، اپنے کمزور امکانات کا پورا خاکہ ایک گہرے اخلاقی ملال کی بنیاد وں پر مرتب کرتے ہیں۔ جس ظریفانہ شاعری کی شروعات کا پس منظر یہ ہو، اس پر گفتگو کے لئے ہمیں ایک نیا سیاق، ایک نیا تناظر اختیار کرنا ہوگا۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ہمارے عہد سے بہت پہلے اکبر نے انسانی حقوق کی تفتیش کے سلسلے میں یہ بھید پا لیا تھا کہ انہیں ہم سنجیدہ تجربوں سے اور مزاحیہ تجربوں کے خانے میں الگ الگ رکھ کر نہیں دیکھ سکتے۔


اکبر کی بصیرت نے ہمارے اجتماعی شعور کی سمت تبدیل کر دی۔ یہ شاعری ایک طرح کی حکمت عملی تھی اور اپنے اضطراب، اپنی برہمی، اپنے ملال اور اپنی افسردگی کو چھپانے کی اور اسی کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور ٹکنالوجی کے خطوط پر استوار ہونے والے تمدن کے اسرار کو عام کرنے کی۔ ایک محیط ِگریہ دل اور ایک آشنائے خندہ لب کی روداد اکبر کی شاعری کے ذریعے ساتھ ساتھ سامنے آتا ہے۔ لہذا ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں ہیں کہ اکبر نے مزاح اور سنجیدگی کے فرق کونہ صرف یہ کہ مٹایا ہے، اپنے عہد کی حقیقت کا ایک ایسا ہمہ گیر تصور بھی وضع کیا ہے جسے ہم صرف جدید یا صرف قدیم نہیں کہہ سکتے۔


پچھلے کچھ برسوں میں اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی کی عقلیت اور روشن خیالی کے عام میلانات اور نئی تہذیبی نشاۃ ثانیہ کی روایت کے سلسلے میں ایک خاص طرح کا رویہ سامنے آیاہے۔ یہ رویہ ایک بنیادی تشکیک کا ہے جس کے مطابق حقیقت کا ایک ایسا تصور قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو یک رخا نہ ہو اور ہمارے زمانے کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہو۔ چنانچہ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ ہماری ذہنی بیداری کا وہ دور جسے انیسویں صدی کی اصلاحی انجمنوں اور قومی تعمیر کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک نئی نشاۃ ثانیہ کا دور سمجھا جاتا ہے، وہ از اول تاآخر حقیقت نہیں ہے۔ اس حقیقت میں ہمارے اجتماعی زوال کی پیدا کردہ ایک اسطور بھی چھپی ہوئی ہے۔ سرسید اور ان کے بعض معاصرین کی حقیقت پسندی نے انہیں اس اسطور کی موجودگی کے احساس سے دور رکھا۔ اسی لئے ان کے بہت سے تہذیبی مفروضے بھی غلط یا بے بنیاد ثابت ہوئے۔


اکبر کی شاعری ہمیں حقیقت اور اسطور کا، تاریخ کی دھوپ اور چھاؤں کا پورا منظر یہ دکھاتی ہے۔ اسی لئے یہ شاعری ایک خاص دور کی تاریخ میں پیوست ہونے کے باوجود اس دور سے نکلنے اور ہمارے احساسات سے رشتہ کرنے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جس شاعری پر اپنے ماضی میں کھوئے جانے اور اپنے حال کے مرکز پر جن طاقتوں کے انکاری ہونے کا الزام عائد کیا جاتا تھا، وہ شاعری آج اپنی معنویت کے کچھ نئے پہلوؤں کے ساتھ ہم سے مکالمہ کرتی ہے۔ گویا کہ اکبر کی بصیرت نے سنجیدہ اور مزاحیہ کی تفریق کو ختم کرنے کے علاوہ قدیم اور جدید کے معنی بھی بدل دیے۔


اسی طرح اکبر نے تاریخ کو بےشک ایک حوالے کے طور پر برتا ہے۔ اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی واقعات، ایجاد ہونے والی نئی نئی چیزوں اور معاشرتی صورت حال کابیان اکبر نے تقریبا ًویسے ہی دو ٹوک انداز میں کیا ہے جس طرح سرسید، حالی اور آزاد نے۔ مگر سرسید، حالی اور آزاد نے تاریخی حقیقت کا جو مفہوم مقرر کیا تھا، اکبر اس کی بہ نسبت ایک مختلف تصور اس حقیقت کا رکھتے ہیں۔ ان کے بیانات غیر مبہم ہونے کے باوجود ایک علامتی سطح بھی رکھتے ہیں اوران کا مجموعی تناظر ایک ایسی وسعت رکھتا ہے جو تاریخ کی حد بندیوں کو قبول نہیں کرتی اور ایک مخصوص دور کی تاریخ کو انسانی تجربے کی ایک خاص شکل کے طور پر دیکھتی ہے۔ اس کا محاسبہ وہ روایت اور تجربے اور امکان کے ایک مسلسل اور متحرک پس منظر میں کرتے ہیں۔


یہی وجہ ہے کہ تاریخ کو ایک خاص حوالے کے طور پر برتنے کی جو کوشش اکبر نے کی، اس کا سراغ نہ تو سرسید کے یہاں ملتا ہے نہ حالی اور آزاد کے یہاں، خاص طور پر نظم جدید کے سلسلے میں ان کے ایقانات اور سرگرمیوں کے سیاق میں۔ اکبر نے جو سطح اختیار کی وہ نہ تو صرف مادی مقاصد کی پابند ہے، نہ انیسویں صدی کی عقلیت کی۔ یہ سطح تاریخ کو ایک سیال مظہر کے طور پر دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اکبر حقیقت کی طرح وقت کا بھی ایک فلسفیانہ تصور رکھتے ہیں۔


ان اسباب نے اکبر کی شاعری کے مقاصد کو بھی وسیع کیا ہے۔ جو کام انیسویں صدی کے مصلحین تاریخی حقیقت اور عقلیت کے واسطے سے لینا چاہتے تھے، اکبر نے اپنی شاعری کے ذریعے اس سے کہیں بڑا کام لینے کی کوشش کی۔ اکبر کی شاعری نہ تو سائنسی کا مرانیوں کا اشتہار تھی، نہ تاریخ کی سطح کے اوپر تیرتی ہوئی حقیقتوں کا مرکب۔ تاریخ کے جبر سے اپنی بصیرت کو رہا کرنے میں اکبر کو جو کامیابی نصیب ہوئی، وہ اسی لئے کہ اکبر نے صرف مصلح بننے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے اپنی بصیرت کا فریضہ ایک دوربیں اور دانش مند تخلیقی انسان کے طور پر ادا کیا۔ شعور کی یہ جہت اکبر کو ایک ایسا امتیاز عطا کرتی ہے جس سے ان کی معاصریت بہرہ ور نہیں ہو سکی۔


اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ سرسید، حالی، آزاد، شبلی اور نذیر احمد یہ سب کے سب غیر معمولی لوگ تھے، مگر ایک شبلی کو چھوڑ کر ان میں سے کسی نے بھی مغربیت کے سیل بے اماں میں اپنی مسرت کا سراڈ ھونڈنے کی جستجو نہیں کی۔ عام انسانی مقاصد اور اجتماعی مفروضوں نے کسی کو اتنی مہلت ہی نہیں دی کہ فوری مسائل سے ہٹ کر کسی اورمسئلہ کی طرف متوجہ ہوتا۔ لیکن اکبر کی اصل حیثیت ایک شاعر کی تھی اور اپنے اس ہنر کا وہ گیان بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے نہ تورائج الوقت رویوں سے سمجھوتہ کیا، نہ اپنی شاعری کے ذریعے اس قسم کے خیالات عام کئے جو انجمن پنجاب کے مناظموں میں پسند کئے جاتے تھے۔ اس سلسلے میں اکبرکے امتیازات حسب ذیل ہیں۔


(۱) اکبر نے اپنی روایت اور اپنے عہد کی ذہنی زندگی کے لئے نئی علامتیں وضع کیں۔ ریل، انجمن، گزٹ، اخبار، ہوٹل، ٹائپ، پائپ، کالج، ڈبل روٹی اشیا بھی ہیں اور علامتیں بھی۔ اکبر نے انہیں علامتوں ہی کے طورپر دیکھنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ان پر اظہار خیال کے لئے بھی انہوں نے ایک تخلیقی اسلوب اختیار کیا۔


(۲) اکبر نے اپنی شاعری سے نئے واقعات اور ایجادات کے حواس سے اپنے انفرادی اور معاشرتی ردعمل کا تعین کیا ہے۔ اس ردعمل کی سطح جذباتی ہے، اسی لئے اکبر نے ذہنی حقیقتوں کو تاریخ کے ٹھوس حوالوں سے ملاکر دیکھنا چاہا ہے۔


(۳) اپنے شاعرانہ تخیل کی مدد سے اکبر نے انسانی تجربے میں آنے والی، عام اشیا پر بہ قول عسکری انسانی جذبہ کی مہر لگائی ہے۔


(۴) اپنے معاصرین میں اکبر نے سب سے پہلے یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ حقیقت کا کوئی بھی مظہر وہ چاہے کتنا ہی متعین اور ٹھوس کیوں نہ ہو، اپنے معنی اور مقصد کی تلاش انسانی تجربے کے سیاق میں کرتا ہے اور اس سیاق میں آنے کے بعد ہماری بہت سی اشیا کا مقصد اور عمل تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ اشیا ہماری داخلیت پر اثرانداز ہونے لگتی ہے۔


(۵) جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے، اکبر نے نئی اور پرانی ان حقیقتوں کو نئی اور پرانی قدروں کی کشمکش کے طور پر دیکھا تھا اور اسی حساب سے تاریخ کے نئے مظاہر کو مرتب کرنا چاہا تھا۔


اکبر نئے مظاہر کے شور شرابے میں اپنی روایت اور نظام اقدار، یا یوں کہنا چاہئے کہ اپنی مشرقیت کے احساس سے لاتعلق نہیں ہوئے۔ لاتعلق تو سرسید، حالی اور آزاد بھی نہیں ہوئے تھے، مگر ان کی مشرقیت، نئے مقاصد کے سیلاب میں ایک حد تک پیچھے چلی گئی تھی اور کچھ ضمنی سی چیز ہوکر رہ گئی تھی۔ ان کے سامنے مسئلہ اپنی مشرقیت کے تحفظ کا نہیں تھا، بلکہ نئے تہذیبی اسالیب کی روشنی میں ایک نئے رویے کی تشکیل کا تھا۔ اور اس رویے کی تشکیل کرتے وقت ان کے سامنے اس طرح کا کوئی بھی سوال نہیں تھا کہ یہ رویہ ان کے ماضی سے کتنی مناسبت رکھتا ہے، رکھتا بھی ہے یانہیں؟ شبلی کی مشرقیت ایک تہذیبی اور معاشرتی مسئلے کے طور پر سامنے آئی تھی۔ اکبر نے اسے فلسفیانہ اور تخلیقی سوال بنا دیا۔


یہی وجہ ہے کہ اکبر کے یہاں زوال اور کمال کے معنی وہ کچھ نہیں ہیں جیسے کہ مثال کے طور پر سرسید، حالی اور آزاد کے یہاں تھے۔ فراق صاحب نے پورے ایشیا کے سیاق میں اکبر کی اہمیت پر جو زور دیا ہے، اس کا نمایاں ترین پہلو یہی ہے کہ اکبر نے مغرب و مشرق کی آویزش کا ادراک ایک محدود قومی نظریے کے مطابق نہیں بلکہ ایک ایشیائی کی حیثیت سے کیا تھا۔ مغرب میں ٹکنالوجی کی تیز رفتاری نے جس صارفی Consumer معاشرے کو بڑھاوا دیا ہے، اس کی طرف اشارہ کرنے والے غالباً پہلے اردو شاعر اکبر ہی ہیں۔


غالب تک، مغل اشرافیہ کی اپنی زندگی کے باوجود تار برقی اور ریل یہاں تک کہ فرنگی عورتوں کے لباس اور وضع قطع کو بھی ایک طرح کی مرعوبیت کے ساتھ دیکھتے تھے۔ ہمارے سب سے بڑے مصلحوں اور معماروں کا رویہ مغربی کلچر کی طرف نیازمندی ہی کا تھا۔ راجہ رام موہن رائے اور سرسید دونوں اپنے اپنے دور کے سب سے بڑ ے حقیقت پسند اور خواب پرست تھے، جنہوں نے زندگی کا نصب العین یہی مقرر کیا تھا کہ حقائق کے واسطے سے ایک عظیم الشان اجتماعی خواب کی تعبیر تلاش کی جائے۔ مگر دونوں پر حصول تعبیر کا جوش اس حد تک حاوی تھا کہ انہوں نے مشرق کی انفرادیت اور مشرقیت کے حدود تک کا لحاظ نہیں کیا۔


انیسویں صدی کے نصف آخر میں ایشیا کی تہذیبی اور اقتصادی آزادی، صارفی تمدن کے آشوب سے مشرق کی نجات اور بہ حیثیت ایک ہندوستانی مسلمان کے اپنے طرز احساس کی حفاظت کے سلسلے میں اکبر کی ذہنی اور جذباتی جستجو سب سے زیادہ پیش پیش رہی۔ ان کی طبیعت میں وہ نیم فلسفیانہ افسردگی ہمیشہ سے تھی جو کامرانیوں کے جشن میں اداسی کی پرچھائیوں کو بھی دیکھ لیتی ہے، جو قومی تعمیر کے نشے میں اپنی اجتماعی تخریب کے اندیشوں کو بھی سمجھتی ہے، چنانچہ اکبر نے مغرب کے راستے سے مشرق میں در آنے والی حقیقتوں اور چیزوں پر ایک گہرے اور متوازن احساس کے ساتھ نظر ڈالی۔ انگریزوں کی قدرت ایجاد سے سحرزدہ نہیں ہوئے اوران کی اختراعات کو اپنی تہذیبی زندگی کے متصادم علامتوں کے طور پر دیکھا-


اے شیخ جب نکیل نہیں دست قوم میں
پھر کیا خوشی جو اونٹ ترے ریل ہو گئے


حضرت حضر ٹکٹ مجھ کو دلا دیں اکبر
رہ نمائی کے لئے ہے مجھے کافی انجن


مال گاڑی پہ بھروسہ ہے جنہیں اے اکبر
ان کو کیا غم ہے گناہوں کی گراں باری کا


محاورات کو بدلیں براہ ریل جناب
ٹکٹ بدست کہیں اب بجائے پابہ رکاب


کیونکر خدا کے عرش کے قائل ہوں یہ عزیز
جغرافیے میں عرش کا نقشہ نہیں ملا


بزم یاراں سے پھری باد بہاری مایوس
ایک سر بھی اسے آمادہ سودا نہ ملا


کیسی سہولت اور خاموشی کے ساتھ سرخوشی اور زندہ دلی کی فضا میں ایک حرف حزیں، یاملال کا ایک لمحہ داخل ہو جاتا ہے۔ اکبر مسکراتے بھی ہیں تو اس طرح گویا اپنے آنسوؤں کو چھپا رہے ہوں۔ ان اشعار میں ایک اضطراب آسا طبیعت اور ایک ہزیمتوں سے دو چار قوم کی حالت کا بیان بہت پرفریب کیفیت کے ساتھ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا اکبر ہنسی ہنسی میں اپنے اجتماعی زوال اور اپنے گم ہوتے ہوئے تشخص کا قصہ سنا رہے ہیں۔ ان میں ایک تھکی ہوئی اور اپنے انجام سے باخبر تہذیب کے ہانپنے کی آواز چھپی ہوئی ہے۔ ان شعروں میں اکبر نے جس تکنیک کا استعمال کیا ہے، وہ تخلیقی اور شاعرانہ تخیل کی بنیادوں سے برآمد ہوئی ہے اور اس حساب سے ہم اکبر کے شعری رویے کو جدید ترین شعری رویے کی ہی ایک شکل بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ شعر دیکھئے،


بے علم بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری
افسوس کے اندھے بھی ہیں اور سوبھی رہے ہیں


سعادت روح کی کس بات میں ہے آپ کیا جانیں
کہ کالج میں کوئی اس بات کا ماہر نہیں ہوتا


ہے نئی روشنی اک لوکل و ذاتی ترکیب
لفظ ہی لفظ جتنے ہیں زوائد اس کے


لمپ بجلی کا ہے یہ مہرجہاں تاب نہیں
جب اندھیرا ہو تو ظاہر ہوں فوائد اس کے


ایمان بیچنے پہ ہیں اب سب تلے ہوئے
لیکن خرید ہو علی گڑھ کے بھاؤ سے


وضع مغرب سے مجھے کچھ بھی تسلی نہ ہوئی
ناز تو بڑھ گئے دولت کی ترقی نہ ہوئی


چیز وہ ہے بنے جویورپ میں
بات وہ ہے جو پانیر میں چھپے


کہتے ہیں راہ ترقی میں ہمارے نوجواں
خضر کی حاجت نہیں ہم کو جہاں تک ریل ہے


برق کے لیمپ سے آنکھوں کو بچائے اللہ
روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے


آنے والے نہ رہے انجمنِ دل کی طرف
کوئی کالج کی طرف ہے کوئی کونسل کی طرف


ان کی بیو ی نے فقط اسکول ہی کی بات کی
یہ نہیں پوچھا کہاں رکھی ہے روٹی رات کی


حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا


اکبر کے یہاں ایسے اشعار بکثرت ملتے ہیں جن میں مغرب کی مادہ پرستی کے نتائج کا محاسبہ کئی سطحوں پر کیا گیا ہے۔ انسانوں کے ذاتی باہمی تعلقات کی سطح، انسان اور فطرت کے رابطوں کی سطح، انسان اور اس کے گردوپیش کی دنیا میں بکھری ہوئی چیزوں کے مابین رشتے کی سطح، غرض کہ ان تمام سطحوں پر اکبر اپنے عہد کے بدلتے ہوئے اور بگڑتے ہوئے انسانی رشتوں کا جائزہ لیتے ہیں اور ٹھوس پیکروں کی مدد سے انہیں بیان میں داخل کرتے ہیں۔ اکبر کا غیرمعمولی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عام بلکہ عوامی اصطلاحوں میں انسان کی کم ہوتی ہوئی حیثیت، اقدار پر اس کی کمزور پڑتی ہوئی گرفت اور حقیقت کے تغیر پذیر تصور کی روشنی میں انسانی جذبات کی ابتری اور انتشار کا بیان ایک وسیع معاشرتی پس منظر میں کیا ہے۔


مولوی اور مسٹر اور لیڈر اور کلکٹر اور بدھو اور جمن، افسر اور نوکر، بیوی اور شوہر، بیٹا، طالب علم، ماسٹر، خاتون خانہ اورکالج کی لڑکی۔۔۔ یہ تمام کردار ڈی ہیومنائزیشن کے خطرات سے گھرے ہوئے ایک سراب آساتمدن کی تماشہ گاہ میں اس طرح سامنے آتے ہیں کہ ان کا ماضی اور ان کا مستقبل بھی اپنے سینیریو Scenario کے ساتھ سامنے آموجود ہوتا ہے۔ اس تمدن نے انسان اور انسانی رشتوں کا جوحشر کیاہے، وہ چیزیں جوہمارے نظام احساس میں اپنی مستقل جگہ بنا چکی تھیں، انہیں اس تمدن نے جس حال کو پہنچایا ہے، اکبر ایک زہرخند کے ساتھ ان سب کی روداد سناتے ہیں۔


کرداروں اور چیزوں کو علامات کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ سے اکبر کے بیانات میں کبھی اکتاہٹ کا رنگ پیدا نہیں ہوتا۔ اکبر کی توجہ کا اصل مرکز ہماری دنیا میں ایک طرح کی مرکزی حیثیت رکھنے والے معاشرتی اور ثقافتی مسئلے تھے۔ ان میں مغرب کے ہاتھوں مشرق کے مادی اور تہذیبی استحصال کا مسئلہ بھی شامل ہے اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہر آشوب لکھنے والوں سے زیادہ کہیں گہرائی کے ساتھ اکبر نے اپنے عہد کے آشوب کو سمجھا ہے۔


اس میں شک نہیں کہ انیسویں صدی میں قومی تعمیر کی تمام کوششوں کا رخ تاریخ کے ان مطالبات کی طرف تھا، جو اس زمانے کی ضرورتوں نے پیدا کئے تھے۔ سرسید نے بھی، اس عہد کے دوسرے مصلحوں کی طرح حال کی تعمیر پر نظر رکھی اور اس سلسلے میں وہ اپنے ماضی سے جو توانائیاں اخذ کر سکتے تھے، انہیں بھی اسی مقصد کے لئے وقف کر دیا۔ وہ اپنے عہد کی تاریخی تجدد پرستی کے سب سے بڑے نمائندے تھے اور آئین روزگار کے ہر رمز سے باخبر بھی۔ لیکن فوری مقاصد کے جبر نے انہیں شاید اتنی مہلت نہیں دی کہ وہ اصلاح اور تعمیر، مادیت اور عقلیت کے اس پورے سلسلے میں چھپے ہوئے اندیشوں پر دھیان دے سکیں۔ اپنی روایت کی تعین قدر میں حالی اور آزاد کے یہاں جس انتہاپسندی اور عدم توازن کو راہ ملی اس کا سبب حال میں حد سے بڑھی ہوئی یہی آلودگی تھی۔


وہ سب کے سب ایک تاریخی فریضہ انجام دینا چاہتے تھے۔ ان حالات کا قرض ادا کرنا چاہتے تھے جن میں اس زمانے کی زندگی گھر کر رہ گئی تھی۔ اکبر کی شاعری نے بھی وہی تاریخی فریضہ انجام دینے کی کوشش کی مگر اپنے تشخص، اپنے امتیاز اور اپنی انفرادیت کو محفوظ رکھتے ہوئے۔ وہ سائنس اور ٹکنالوجی کی پیدا کردہ ترقی معکوس کو بھی دیکھ رہے تھے۔ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ روایات اور اقدار کے انہدام نے پورے ماحول میں کتنی گرد پیدا کر دی ہے اور ہماری بصارت اس سے کس حد تک متاثر ہوئی ہے۔ اسی لئے اکبر کو تہذیب حاضر کے وہ مظاہرے بھی پریشان کئے ہوئے تھے جن کا ظہور ابھی نہیں ہوا تھا۔ اورجن کا تعلق مادی تہذیب کے حال سے زیادہ اس کے مستقبل سے تھا۔ عسکری نے کہا تھا کہ اکبر نے اپنے نظام اقدار کی حفاظت اس طرح کی، جس طرح ایمان کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ مزاحمتی رویہ ایک بسیط تہذیبی تناظر کے ساتھ ہمیں اکبر کے یہاں جتنا واضح اور روشن دکھائی دیتا ہے، اس کی کوئی مثال اقبال سے پہلے کی اردو شاعری میں کہیں نہیں ملتی۔


اقبال کی طرح، اکبر کے سلسلے میں بھی یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ ایک مسلمان کے نقطہ نظر سے بھی ان کے تصورات کی بنیادوں تک پہنچا جائے۔ اکبر کے احساسات کی تشکیل میں، ان کی فکر کے مجموعی مزاج میں اس نقطہ نظر کا عمل دخل بہت نمایاں ہے۔ اکبر کے یہاں عصبیت اور تنگ نظری کے جو عناصر پیدا ہو گئے ہیں، ان کا اصل سبب بھی یہی ہے کہ اکبر نئے تجربوں کی تفہیم کے عمل میں روایت کی بخشی ہوئی روشنی سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں تھے۔ یہ اعتراف ان کے بس سے باہر تھا کہ کوئی بھی روایت چاہے کتنی ہی پرانی اور مضبوط کیوں نہ ہو، اس کے اپنے کچھ حدود بھی ہوتے ہیں اور حقیقت کا تصور تہذیبوں کے سفر میں کسی نہ کسی طور پر تبدیل بھی ہوتا ہے۔


اکبریہ دیکھ رہے تھے کہ ان کا زمانہ حقیقت کے ادراک کا بس ایک ہی ذریعہ اختیار کرنے پر تلا ہوا ہے اوریہ ذریعہ ہے سائنسی عقلیت۔ چنانچہ اکبر کے یہاں ردعمل کے طور پر ایک طرح کے جذباتی مبالغے کو بھی راہ ملی اور اپنے عہد کی حقیقت سے وہ آزادانہ ربط قائم نہیں کر سکے۔ لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اکبر کی شاعری حال گزیدہ ہونے سے بچ گئی۔ اکبر کے شعور میں یہ خیال مضبوطی سے جما رہا کہ وہ تمام عناصر جن کی مدد سے ہم زندگی کے مفہوم تک رسائی حاصل کرتے ہیں، ثقافتی اور تہذیبی قدروں کے احساس سے وجود میں آتے ہیں۔ اسی لئے افراد کی شخصی زندگی ہو یا قوموں کی اجتماعی زندگی، ثقافتی اقدار کی اہمیت دوسری تمام حقیقتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ ان قدروں کے بچاؤ کے لئے ہماری تمام قوتیں جو وقف ہوجاتی ہیں، تو اسی لئے کہ یہاں سے معاملہ اپنے وجود کی حفاظت کا ہوتا ہے۔


ہماری ثقافت اقدار کا جو نظام ترتیب دیتی ہے، اس کی حفاظت کئے بغیر ہم اپنی ہستی کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ سرسید کے فیوض کو تسلیم کرنے کے باوجود اکبر کی بصیرت نے انہیں اعترا ض کا نشانہ جو بنایا، تو اسی لئے کہ اکبر کے نزدیک سرسید کی پوری تحریک اپنی ثقافتی قدروں کو اگر ترک نہیں کر رہی تھی تو کچھ ثانوی قسم کی چیز ضرور سمجھنے لگی تھی۔ اکبر بھی اگر صرف مصلح اور معمار ہوتے تو ان کی کوششیں اپنے معاشرے کی اصلاح اور تاریخ کے حقوق کی ادائیگی کے لئے وقف ہو کر رہ گئی ہوتیں۔ اسی طرح اکبر کو صرف سیاسی آزادی کے مسئلہ سے بھی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی نظر میں زندگی کی دوسری بنیادی حقیقتیں بھی تھیں، اسی لئے وہ اپنی تمام قوم کو غلامی کے جال سے نکالنا چاہتے تھے۔


تہذیب اور ثقافت کے اہم ترین محرکات کا جیسا مربوط احساس ہمیں اکبر کی شاعری میں ملتا ہے، ان کے تمام معاصرین میں کسی اور کے یہاں نظر نہیں آیا۔ ایسی صورت میں اکبر کو محض ترقی پسند اور رجعت پسند کے خانوں میں تقسیم کرنا ایک ایسی بڑی غلطی ہے جو ہمیں اکبر کی شاعری کے بنیادی مسئلوں اور اکبر کے اصل سروکار تک پہنچنے نہیں دیتی۔ بہ ظاہر اکبر کی شاعری پیچیدہ اور پراسرار نہیں ہے۔ ان کے یہاں ذہنی اور تہذیبی رویوں کا اظہار بھی دو ٹوک اور غیر مبہم انداز میں ہوا ہے، لیکن تخلیقی سطح پر یہ شاعری ایک مستقل مزاحمت، ایک مستقل کشمکش کی شاعری ہے۔ طرح طرح کے اندیشوں اور وسوسوں سے بھری ہوئی۔ اسی لئے اس پر رواداری میں کوئی حکم لگانا بھی اتنا ہی نامناسب ہے جتنا کہ اکبر کو خالی خولی مزاح نگار سمجھ لینا۔ یہ شاعری بہرحال ایک زیادہ گہرے اور سنجیدہ مطالعے کا تقاضہ کرتی ہے۔