اکبر کا ذہن

اکبرؔ کی شاعری ادب اور مقصد کے تعلق کی ایک نمایاں اور دلنشیں مثال ہے۔ ان کا مطالعہ خالص فنی نقطۂ نگاہ سے ایک انفرادی مطالعہ ہوگا کیونکہ ابتدائی غزلوں کے سوا اکبرؔ نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور جب تک فن اور تکنیک کے مطالعہ میں موازنہ اور مقابلہ کی صورت نہ پیدا ہو، تنقید کے ایسے اصول اخذ کرنا ناممکن ہو جاتا ہے جو فن کے لوازم کو پیش نظر رکھ کر تیار کئے جائیں۔ اکبرؔ اپنی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری میں منفرد ہیں۔ اس لئے ان کے فنی شعور کی کسوٹی ان شعراء سے مختلف ہوگی، جو کسی روایت کے پابند ہوکر مخصوص حدوں کے اندر ہی اپنے خیالوں کی جولان گاہ بناتے ہیں۔


وہ بھی روایتوں کے پابند تھے لیکن فن اور تکنیک میں انھوں نے اپنی روایتیں خود بنائیں۔ معنی کو صورت سے ہم آہنگ کر دیا۔ بھدے اور نامانوس الفاظ خاص جگہوں پر رکھ کر نئے معنی دیے۔ علامتیں تراش کر اسلوب میں نئی راہیں پیدا کیں اور ’’گفتم وشد‘‘ کا نعرہ لگاکر ان سے پیچھا چھڑایا لیکن ان بتوں کی پرستش سے آزاد نہ ہو سکے جو قدما ان کے لئے ورثہ میں چھوڑ گئے تھے۔ ان کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ محض معنی کے پرستار ہیں، صورت سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہے،


قاعدوں میں حسن معانی گم کرو
شعر میں کہتا ہوں ہجے تم کرو


لیکن نہ جانے کتنے شعر ایسے ملیں گے جن میں ردیف، قافیہ اور لفظ ہیں، معنی کا پتہ نہیں۔ فن کا یہ تضاد نتیجہ ہے خیالوں کے تضاد کا، لیکن جس طرح فن میں اکبرؔ نے نئی راہ اور نیا اسلوب اختیار کرکے فن کی خامیوں پر پردہ ڈال دیا، اسی طرح خیالات میں بعض حقائق پر غیرمعمولی زور دے کر تضاد کو کمزور بنا دیا۔ موضوع اور اسلوب کے تعلق کا مطالعہ بھی اکبرؔ کی شاعری میں بڑی دلچسپی سے کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب اکبرؔ کے خیالات کی بنیاد اور تصورات کے سوتے کا پتہ ہو کیونکہ اکبرؔ نے جو مواد شاعری کے لئے استعمال کیا، اسے اردو کے کسی شاعر نے ٹھیک اسی شکل میں استعمال نہیں کیا۔ بھدے اور ان گھڑ واقعات اور خیالات کو شاعرانہ حسن اور جادو کے ساتھ پیش کرنا آسان نہیں تاہم اکبرؔ نے نہایت روانی کے ساتھ اسی مواد کو سڈول اور خوبصورت بناکر شعر کے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔


اکبر اپنی ابتدائی شاعری میں رعایت لفظی کے جس گورکھ دھندے میں پھنس کر رہ گئے تھے، وہ اگر سنجیدہ غزل گوئی کے لئے قائم رہتا تو اکبرؔ کا نام تیسرے درجے کے غزل گویوں کے ساتھ لیا جاتا لیکن وہی رعایت لفظی ضلع جگت ظریفانہ شاعری میں ان کے کلام کا زیور بن گئے اور انھیں اردو شعراء کی صف اول میں جگہ مل گئی۔ یہاں پھر یہی انداز ہوتا ہے کہ ان کے موضوعات کو ان کے اسلوب اور تکنیک نے چمکا دیا اور ان کے فن میں گرمی اور جان اس مواد کی وجہ سے پیدا ہوئی جو وہ کام میں لائے۔


زندگی ہی کے خزانے سے تو ہر شاعر اپنے جیب ودامن بھرتا ہے لیکن زندگی کو سمجھنے اور اس کو شعر وسخن کے کام میں لانے کی صلاحیت ہر شاعر میں نہیں ہوتی۔ کوئی زندگی کے نہاں خانہ میں اتر کر غالبؔ بنتا ہے کوئی میرؔ، کوئی اقبالؔ بنتا ہے، کوئی نظیر، کوئی شاہ ظفر بنتا ہے کوئی ناسخ۔ مواد اور موضوع کے انتخاب اور اس کے سانچے ہی پر شاعری کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے، جو ایک شاعر اپنے فنی شعور کی رہنمائی میں اظہار خیال کے لئے استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے اکبرؔ کے فن سے پہلے ان کے موضوع کا مطالعہ ضروری ہو جاتا ہے۔ جس خام مواد سے دوسرے شعراء نے چھان پھٹک کر خیالی حقائق اخذ کئے اور انھیں فلسفیانہ تصورات اور معتقدات کی شکل میں پیش کیا، اس خام مواد کو اکبرؔ نے خود حقائق بناکر پیش کر دیا۔ اب یہ کہ وہ ان حقائق کے متعلق کیا زاویۂ نگاہ اختیار کرتے تھے، ایک الگ بحث کا محتاج ہے۔


تنقید اگر محض اشعار کے فنی محاسن اور معائب کے شمار کر لینے کا نام نہیں ہے، اگر شعر سن کر محض واہ کر دینے یا منہ بنانے تک محدود نہیں ہے تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ شاعر کے دل اور روح تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اس کی ذہنی سیاحت میں اس کا ہم سفر بنا جائے اور ہر خیال کی مادی بنیاد کا پتہ لگایا جائے۔ اس طرح اس کے فنی شعور کا تجزیہ بھی ہو سکےگا اور اس کے محرکات شعری کا علم بھی۔ یہ بات تنقید کو آسان بناتی ہے اور مشکل بھی۔ نتائج کے لحاظ سے آسان اور تجزیے کے لحاظ سے مشکل، کیونکہ فن اور قدرت بیان کے پردے میں شاعر کا خلوص اس طرح پوشیدہ ہو جاتا ہے کہ جب تک اصل خیالات اور عقائد کا علم نہ ہو، شاعر کے روایتی اور حقیقی تصورات میں تمیز کرنا تقریباً ناممکن ہے۔


پھر تنقید کس چیز کی ہوگی؟ محض لفظوں کے حسن استعمال کی، عروض کی نغز کی، صنائع کے برمحل یا بےجا صرف کی، یا شاعر کے شعور اور اس کے اظہار کی؟ بنیادی تصورات کا پتہ نہ چلے تو شعر کی معنویت کے متعلق بھی قطعی اور یقینی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ اکبرؔ کا مواد شعری ان کے فن سے اتنی گہری مناسبت رکھتا ہے کہ ان کے بعض اہم خیالات کی حقیقت پر نگاہ ڈالنا، ان کے فنی شعور کے لئے ضروری ہے، خود اکبرؔ نے بھی تو کہا ہے،


شعر اکبرؔ میں کوئی کشف و کرامات نہیں
دل پہ گذری نہ ہو جو ایسی کوئی بات نہیں


فن اور خلوص کے اس تعلق کو قدما سے لے کر اس وقت تک ناقدین نے مختلف شکلوں میں تسلیم کیا ہے۔ جو چیز شاعری کو ساحری اور بے جان لفظوں کو چلتی ہوئی تلوار بناتی ہے، اسے الفاظ میں نہیں شاعر کے دل میں تلاش کرنا چاہئے۔ اپنا اور دوسرے شاعروں کا تقابل کرتے ہوئے انھیں خود اس کا احساس ہوا ہے،


وہاں الفاظ خضر رہ ہیں یاں معنی ہیں منزل پر
زباں کا ان کو دعویٰ ہے تو مجھ کو ناز ہے دل پر


اکبرؔ نے الفاظ کو خضرِ راہ بناکر بہت سی منزلیں طے کیں۔ جس شاعری کی بنا پر ان کی عظمت کا اندازہ لگایا جاتا ہے وہ محض لفظی کرتب نہیں بلکہ ان کا ’’خون جگر‘‘ ہے جو بقول اقبال ’’سِل کو دل‘‘ بناتا ہے۔ اس خون جگر کا سرمایہ کیا ہے؟ یہ آگ کہاں سے بھڑکتی ہے؟ اظہار خیال کے بنیادی محرکات کیا ہیں؟ اور تصورات کا سرچشمہ کہاں ہے؟ یہ مطالعہ صرف شاعر کے اعترافات اور بیانات کی روشنی میں درست نہیں ہو سکتا بلکہ خارجی حقائق کے ساتھ ان کی ہم آہنگی اور مسائل حیات کے بارے میں شاعر کا رویہ اس کے خیالات کی اصل حقیقت کا پتہ دےگا۔


اکبرؔ ۱۸۴۶ء میں پیدا ہوئے۔ سرسیدؔ، حالیؔ، آزاد اور نذیر احمد پیدا ہو چکے تھے۔ شبلیؔ گیارہ سال بعد عالم وجود میں آئے۔ ان بزرگوں کے دور میں اور خود ان کے ہاتھوں ہندوستان کی زندگی میں اور خاص ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں جو تغیرات ہوئے، اکبرؔ کے مطالعہ میں بھی انہیں پیش نظر رکھنا چاہیے۔ گو اکبرؔ اس کا رواں میں نہ تھے جو سرسید کی رہنمائی میں آگے بڑھ رہا تھا، بلکہ اس کے پرجوش مخالف تھے لیکن جو شخص سرسید اور ان کی تحریکوں کو نظرانداز کرے گا وہ اکبرؔ کو سمجھ ہی نہ سکےگا۔ بعض اوقات تو ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ اکبرؔ صرف ان تحریکوں کے مخالف نہ تھے بلکہ سرسید سے ذاتی مخالفت بھی رکھتے تھے لیکن محض اس منفی انداز نظر سے اکبرؔ کی پسندیدگی کا راز معلوم ہوگا۔ موافقت اور مخالفت دونوں سے شعور کی مختلف منزلوں کا سراغ ملتا ہے۔


بہرحال اکبرؔ کے ارتقائے شعور کا دور غیر معمولی کشمکش کا دور ہے اور اکبرؔ نے اس کشمکش کو چھپایا نہیں ہے بلکہ اسے ہر پہلو سے پیش کر دیا ہے۔ اکبرؔ کی شاعری کا تاریخی حیثیت سے مطالعہ کیا جائے تو مشکل ہی سے عصری تاریخ ہند کا کوئی ایسا واقعہ ہوگا جس کی طرف اشارے نہ مل جائیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے متعلق اکبرؔ کا ردعمل بھی معلوم ہوگا۔ روزہ مرہ کے واقعات سے شاید ہی کسی شاعر نے اتنا فائدہ اٹھایا ہو اور پھر اکبرؔ کی شاعری واقعات کا سرسری یا سپاٹ بیان نہیں ہے بلکہ اکثر یہ واقعات ان کے تصور زندگی سے منسلک ہوکر کسی بڑے خیال کی ایک کڑی بن جاتے ہیں اور ہم چاہے ان سے متعلق ہوں یا نہ ہوں اکبرؔ کے سمجھنے میں وہ ضرور ہماری مدد کرتے ہیں۔


اکبرؔ ایک متوسط مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ گھر کی حالت اچھی نہ تھی۔ اس لئے انھیں شروع ہی سے زندہ رہنے کے لئے جد وجہد کرنا پڑی اور زندگی کے بہت سے تجربے انھوں نے حاصل کئے۔ جب اکبرؔ نے ہوش سنبھالا اس وقت ہندوستان پر باقاعدہ برطانوی اقتدار قائم ہو چکا تھا اور غدر کے مصائب جھیلنے کے بعد مسلمانوں کا وہ طبقہ جس سے وہ وابستہ تھے، انگریز دوستی کو فخر سے دیکھنے لگا تھا۔ اکبرؔ بھی ادھر ادھر کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کر چکے تھے اور جوانی کا لاابالی پن جو رقص وسرود کی محفلوں میں چمکا تھا، زمانہ شناسی پر مجبور ہو گیا تھا۔ نوکری کے چکر میں پھنس کر آزادی کی قدر ہوئی اور نئی زندگی کے تقاضوں کو دیکھ کر ماضی میں پناہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی۔ کبھی ان کے سامنے پسپا ہو جانا پڑا۔


اکبرؔ نے اپنی شاعری کا پہلا دور ۱۸۶۶ء تک قرار دیا ہے۔ اس میں غزل گوئی کا وہ عام رنگ ہے جو لکھنوی رنگ کے نام سے اس زمانے میں ہر دل عزیز ہو رہا تھا۔ اکبر وحیدؔ الہ آبادی کے شاگرد تھے اور وحیدؔ آتش لکھنوی کے شاگرد رہ چکے تھے۔ اس لئے لکھنؤ کے رنگ میں تصوف کی آمیزش اکبرؔ کے یہاں بھی ملتی ہے۔ اس دور کی شاعری میں مستقبل کے اکبرؔ کا نشان بھی نہ ملتا، اگر بعد میں رعایت لفظی سے اکبرؔ نے اتنا فائدہ نہ اٹھایا ہوتا اور صوفیانہ رنگ برقرار نہ رکھا ہوتا۔ دوسرا دور چالیس سال کی عمر پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں پہلے دور کا نکھار ہے۔ غزل کے دلکش اشعار ملتے ہیں اور معرفت کا رنگ نمایاں ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی اس جانے پہچانے اکبرؔ کا پتہ نہیں جس نے بعد میں طنز و ظرافت کے تیر ونشتر سے کام لیا۔ اس دور کے اشعار میں کہیں کہیں مزاح کی جھلک ملتی ہے لیکن وہ ایک طرح کے ہلکے پن کا احساس پیدا کرتے ہیں۔


اس وقت تک اکبر غزل گوئی کی راہ پر چل رہے تھے اور گو وہ اپنے تجربوں کی صداقت کی وجہ سے پراثر اشعار بھی نکال لیتے تھے لیکن وہ زندگی کے وسیع خام مواد کو ایک تجربہ کار اور چابک دست فنکار کی طرح استعمال کرنے پر قدرت نہ رکھتے تھے۔ یہ بات یقینی طور پر (کم سے کم مجھے) نہیں معلوم کہ اکبرؔ نے اپنا رنگ کیوں بدلا لیکن یہ حقیقت ہے کہ تبدیلی ان کے لئے آبِ حیات بن گئی۔ ۱۸۸۵ء سے انھوں نے باقاعدہ وہ ظریفانہ شاعری شروع کردی جو ان کا سرمایۂ افتخار ہے۔


یہاں کچھ دیر ٹھہر کر ان عناصر پر نظر ڈال لینی چاہیے جو ان کی شاعری میں ملتے ہیں اور خارجی حقائق کا ایک سرسری خاکہ اپنے سامنے رکھ لینا چاہئے جن سے اکبرؔ کا ذہن اپنی شاعری کے لئے غذا فراہم کرتا تھا۔ غدر کے بعد ہندوستان ایک نیم جاگیردار، نیم صنعتی دور میں داخل ہو چکا تھا۔ متوسط طبقہ کے اندر فرقہ پرستی کا زہر پھیل چکا تھا۔ مسلمان اپنے ماضی کو سینے سے چمٹائے ہوئے وقت کے ساتھ چلنے سے انکار کر رہے تھے اور نئے سرمایہ دارانہ نظام کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کچھ لوگ ایسے تھے جو انگریزی حکومت کی سیاسی اور معاشی نوعیت کو نظرانداز کرکے اسے محض ایک عیسائی حکومت سمجھتے تھے۔ بعض دونوں حیثیتوں کو ملا دیتے تھے۔


بہرحال اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت بڑی تھی جو حکومت اور طاقت کھوکر مذہب سے اور زیادہ وابستہ ہو گئے تھے اور انہیں قدیم قدروں کو سد راہ بناکر سارے طوفان تغیر کو روک دینا چاہتے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ اگر قدیم اخلاقی اور مذہبی تصورات کو برقرار رکھ کر اپنے روحانی سرمایہ کو محفوظ رکھا جائے تو گئے دن پھر واپس آ سکتے ہیں۔ مادی زوال روحانی زوال کا نتیجہ ہے۔ جیسے اچھے دنوں کے بعد برے دن آئے ہیں، اسی طرح برے دنوں کے بعد اچھے دن آئیں گے اور قدرت مسلمانوں کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرےگی۔


بعض اوقات یہ خیالات بالکل کھوکھلے ہوتے تھے اور محض خیال پرستی پر مبنی۔ لیکن ان کے پیچھے یہ معاشی تصور بھی کام کرتا رہتا تھا کہ حکومت پھر مسلمانوں کے ہاتھ آئےگی۔ غدر سے پہلے یہ خیال عام تھا۔ غدر کے بعد یہ خیال بڑی مایوسی میں تبدیل ہو گیا۔ کچھ لوگ ماضی اور مستقبل کے درمیان فیصلہ کرنے میں لگے ہوئے تھے، کچھ ماضی اور حال کے درمیان۔ اس کے لئے تاریخی نقطۂ نظر اور سماجی تجزیہ کی ضرورت تھی جو ہندوستان کی پسماندہ تعلیمی اور علمی حالت نے فراہم نہیں کیا تھا۔ وقت کی منطق اچھے سے اچھے مفکر کی نگاہوں سے اوجھل تھی اور انھیں بندھے ٹکے قدیم فلسفہ کی روشنی میں حالات کو سمجھنا پڑتا تھا۔ اس دفعہ جو حالات بدلے تھے وہ اس قدر انقلابی تھے کہ قدیم فلسفہ میں ان کے تجزیہ کے اصول ہی موجود نہ تھے۔ اس لئے شدید کشمکش اور پیچیدگی کا سامنا مسلمان مفکروں کو کرنا پڑا۔


اکبرؔ کے پاس بھی حال کے سمجھنے کے لئے کوئی معقول علم موجود نہ تھا۔ وہ کبھی اپنے مشاہدے، کبھی ماضی کی تاریخ سے اور زیادہ تر اپنے وجدان سے کام لیتے تھے اور تغیر کا علم رکھتے ہوئے بھی تغیر کی اصل نوعیت سے واقف نہ تھے۔ ان کا انقلاب کا تصور ایک زوال پذیر صوفی کا تصور تھا جو ذہنی قوت سے اپنے گرد وپیش کی دنیا بدل لینا چاہتا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں،


بنائے کارِ جہاں کو خراب ہی دیکھا
ہمیشہ ہوتے یہاں انقلاب ہی دیکھا


ہم انقلاب کے شائق نہیں زمانے میں
کہ انقلاب کو بھی انقلاب ہی دیکھا


یہ تو بہت اچھی بات تھی کہ اکبرؔ انقلاب کو بھی متحرک واقعہ تسلیم کرتے تھے لیکن وہ زمانے کو اپنے اندازِ نظر اور اپنی خواہش کا پابند بنائے رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ دنیا جیسی تھی ویسی ہی ہو جائے یا کم سے کم اتنا تو ہو کہ اب کوئی نئی بات اس میں ظہور پذیر نہ ہو۔ اکبرؔ نے ان باتوں کو سمجھنے سمجھانے کے لئے مشرق و مغرب کا ایک میکانکی تصور قائم کر لیا تھا اور زندگی کے ہر شعبے کو ان ہی کی روشنی میں دیکھ لیتے تھے۔ یہ کہنا تو صحیح نہیں کہ مشرق و مغرب دو جداگانہ تصورات نہیں ہیں لیکن جب ان سے زندگی کی بدلتی ہوئی رو اور بڑھتے ہوئے دھارے کو روکنے کی کوشش کی جائے تو یہ تصور رجعت پسندانہ اور غیر سائنٹفک بن جاتے ہیں۔ وہ اس بات کے سوا کہ مغرب زیادہ طاقتور ہے اور کسی شکل میں مشرق کے مقابلہ میں اس کی برتری تسلیم کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔


کپلنگؔ نے سامراجی محرکات کی بنا پر کہا تھا، ’’مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب اور دونوں کبھی ایک نہ ہو سکیں گے۔‘‘ لیکن اکبرؔ اس خوف سے دونوں کو الگ الگ سمجھتے تھے کہ مغرب کی نقل مشرق کی روحانیت کا گلا گھونٹ دے گی اور اگر مذہب نہ رہا تو پھر زندہ رہنے سے کیا فائدہ! وہ مغرب کی ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور محسوس کرتے تھے کہ جس طرح شیطانی وسوسے انسان کے دل میں جگہ بناکر اسے ایمان کی راہ سے ہٹا دیتے ہیں، اسی طرح آہستہ آہستہ مغرب مشرق کے سینے میں سیاہ داغ ڈال رہا ہے۔ ان کے قلم میں جتنی طاقت، ان کے الفاظ میں جتنا زہر اور ان کے خیالات میں جتنی گرمی تھی، وہ سب صرف کرکے اکبرؔ مشرق کو مغرب سے دور رکھنا چاہتے تھے اور جو لوگ ان میں سے کسی قسم کا سمجھوتہ چاہتے تھے، اکبرؔ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔


مغربی ذوق ہے اور وضع کی پابندی بھی
اونٹ پر بیٹھ کے تھیٹر کو چلے ہیں حضرت


پیتا ہوں شراب آبِ زمزم کے ساتھ
رکھتا ہوں ایک اونٹنی بھی ٹم ٹم کے ساتھ


ہے عشق حقیقی و مجازی دونوں
قوالی کی بھی صدا ہے چھم چھم کے ساتھ


ان اشعار میں اکبرؔ کا اعتراف شکست بھی ہے۔ انھوں نے مغربی سیلاب کو روکنے کے لئے بہت سے بند باندھے لیکن ان میں رخنے پڑ ہی گئے اور خود انھیں ٹم ٹم کی سواری اختیار کرنا پڑی اور جس مغربی تعلیم سے وہ اس قدر متنفر تھے، اسی کے حاصل کرنے کے لئے عشرتؔ کو لندن بھیجنا پڑا۔ عملی زندگی میں یہ سمجھوتہ ان کے تصور پرست ہونے اور شکست کھانے کا پتہ دیتا ہے۔ اکبرؔ کے لئے مشرق، مذہب، اخلاق، نیک دلی، روحانی پاکیزگی اور خودی کا سرچشمہ ہے اور مغرب اس کا عکس، اس لئے دونوں کو اکٹھا کرنا ان کے خیال میں حقیقتوں سے لڑنا ہے،


ہرچند کہ کوٹ بھی پتلون بھی ہے
بنگلہ بھی ہے پاٹ بھی ہے صابون بھی ہے


لیکن یہ میں تجھ سے پوچھتا ہوں ہندی!
یورپ کا تری رگوں میں کچھ خون بھی ہے


اگر غور سے اکبرؔ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکبرؔ کی تان ہمیشہ مذہب پر ٹوٹتی ہے۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا تغیر انھیں مذہب پر حملہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ مذہب ان کے لئے ناقابل تغیر حقیقت ہے اور زمانہ کی رفتار تغیر پذیر۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے وہ سیاست، تعلیم، پردہ، سائنس، ارتقا، نئی ایجادات، جھوٹی عزت اور مصنوعی شان کے فریب، مغرب کی نقل، چندہ، کالج، بدھو، جمن، اونٹ غرض کہ ہر چیز کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اکبرؔ کا مذہب، مذہب کی ظاہری پابندی اور تصوف کے امتزاج سے بنا ہے۔


وہ تصوف سے دلچسپی لیتے تھے لیکن تصوف سے پیدا ہونے والی بے عملی کے مخالف تھے۔ تصوف پر کسی قسم کا حملہ برداشت نہیں کر سکتے تھے، چنانچہ اسی بنا پر وہ اقبالؔ سے کبیدہ خاطر تھے لیکن ان کا تصوف اسلامی تصوف سے مماثلت رکھتا ہے، حالانکہ وہ حافظؔ شیرازی کو بھی اس میں شمار کرتے تھے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اکبرؔ نے تصوف کا علمی مطالعہ نہیں کیا تھا اور نہ عملاً اسے برتا تھا لیکن اسلام سے غیرمعمولی محبت رکھنے کی وجہ سے وہ تصوف سے متاثر تھے اور وہاں تک بھی ان کی رسائی محض وجدان کی راہ سے تھی۔ ان کا ایک شعر ہے جسے ہم ان کا اعتراف سمجھتے ہیں،


تصوف کے بیاں کو ہوش نے روح آشنا پایا
معانی کچھ نہ سمجھا پر قیامت کا مزہ پایا


تصوف کے معنی نہ سمجھنا پھر بھی اسے روح سے آشنا پانا، پوری طرح ان کے تصوف دوستی کا ترجمان ہے۔ ان کے اس عقیدے کا پتہ ان اشعار سے بھی چلتا ہے جہاں انھوں نے عقل سے کام لینے کی مخالفت کی ہے اور علم کو بے معنی بتایا ہے،


عقل کو کچھ نہ ملا علم سے حیرت کے سوا
دل کو بھایا نہ کوئی رنگ محبت کے سوا


آئےگی تجھ کو نظر صانعِ عالم کی جھلک
سامنے کچھ نہ رکھ آئینۂ فطرت کے سوا


کتاب دل مجھے کافی ہے اکبرؔ درسِ حکمت کو
میں اسپنسر سے مستغنی ہوں مجھ سے مل نہیں ملتا


یہیں ایک عجیب طرح کا تضاد سامنے آتا ہے۔ اکبرؔ روز مرہ کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایک حقیقت پسند نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اردو شعرا کے بہت سے مفروضات کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن جب زندگی کو مجموعی طور پر دیکھنے اور اس کو ترقی کی راہ پر لگانے کا سوال آتا ہے تو وہ عام طور پر محض تصور پرست رہ جاتے ہیں۔ چند اشعار سے ان کی حقیقت پسندی کا اندازہ ہوگا،


میں نے اکبرؔ سا بھی وہمی نہیں دیکھا کوئی
کہتا ہے ان کی کمر مجھ کو نظر آتی ہے


مغرب نے خورد بیں سے کمر ان کی دیکھ لی
مشرق کی شاعری کا مزہ کرکرا ہوا


کچھ صنعت وحرفت پہ بھی لازم ہے توجہ
آخر یہ گورنمنٹ سے تنخواہ کہاں تک


عزت ملی ہے شرکتِ کونسل سے شیخ کو
غازہ ملا گیا ہے رخِ فاقہ مست پر


اکبرؔ ان حقائق پر نظر رکھنے کے باوجود بالکل تصور پرست تھے اور کائنات اور زمانہ کے تغیرات کو بالکل بے حقیقت سمجھتے تھے۔ یہی چیز ان کی حقیقت پسندی اور تیز نگاہی کے باوجود انہیں ان تمام لوگوں سے دور کرتی ہے جو کسی نہ کسی شکل میں تغیر کے قائل تھے اور اپنی جد وجہد سے دنیا میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے تھے۔ سرسید اپنی بہت سی کوتاہیوں کے باوجود ایک نئی دنیا کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن اکبرؔ اس ساری بیداری اور زندگی کو محض وقتی ہنگامہ آرائی کہتے تھے، جو ان کے دور میں تاریخی وجود سے طوفانی شکل میں رونما ہوئی تھی،


ہرگز نہ مستقل سمجھ اس انقلاب کو
رکھ راہ راست بھونکنے دے ان کلاب کو


ہزار سائنس رنگ لائے ہزار قانون ہم بنائیں
خدا کی قدرت یہی رہےگی ہماری حیرت یہی رہےگی


بحثِ کہن و نو میں سمجھتا نہیں اکبرؔ
جو ذرہ ہے موجود، وہ ہے روزِ ازل سے


منتشر ذروں کو یکجائی کا جوش آیا تو کیا
چار دن کے واسطے مٹی کو ہوش آیا تو کیا


یہ اکبرؔ کے بہترین اشعار نہیں ہیں لیکن یہ ان کے خیالات کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ ہندوستان میں اور ہندوستان کے باہر اس انقلاب کو دیکھتے رہتے تھے، ان سے ڈرتے تھے، ان کے مقابلہ میں ہار مانتے تھے لیکن یہ یقین رکھتے تھے کہ یہ سب تمام باتیں وقتی ہیں۔ انسان اور دنیا فانی ہیں۔ آخر کار بہت کچھ ان کے تصورات کے مطابق ہوگا۔ ایک طرف انھیں یہ احساس تھا کہ،


اس انقلاب کو حیرت سے دیکھتا ہوں میں
زمانہ کہتا ہے دیکھا کرو ابھی کیا ہے


میں جو روتا ہوں کہ افسوس زمانہ بدلا
مجھ پہ ہنستا ہے زمانہ کہ تمہیں وہ نہ رہے


وعظ کالج میں جو کہہ آتے ہیں اکثر اکبرؔ
کیا یہ گرتی ہوئی دیوار کو تھام آتے ہیں


تو دسری طرف انھیں اپنے اس عقیدے کی مضبوطی اور پختگی پر ناز تھا،


حضرت اکبرؔ کے استقلال کا ہوں معترف
تا بہ مرگ اس پر رہے قائم جو دل میں ٹھان لی


اکبرؔ کے تصورات کی یہ فلسفیانہ بنیاد ہے۔ اسی چوکھٹے میں ان کی ساری شاعری بٹھائی جا سکتی ہے اور ان کی مدد سے ان کے خیالات کی تہہ تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اگر وہ مغرب سے متنفر ہیں تو اسی لئے کہ وہ اپنی تعلیم اور سائنس سے ان تصورات پر ضرب لگاتا ہے جو اکبرؔ کو عزیز تھے۔ اگر وہ نئی تعلیم سے سے گھبراتے ہیں تو اس لئے کہ انھوں نے مسجد کی جگہ چھین لی ہے۔ اکبرؔ کے طنز میں جو تلخی ہے وہ حقیقتاً اس بے بسی کی تلخی ہے جو تصور پرست کے یہاں ہوتی ہے۔ پھر یہی بے بسی انھیں عمل کے میدان سے ہٹا دینے پر آمادہ کرتی ہے۔ زمانہ کا رنگ دیکھ کر انھوں نے مسلمانوں کو جو مشورہ دیا وہ ان کے عینیت پسند فلسفہ سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے،


رفتار اور سمت میں موج ہوا کی ہے
اے قصہ گوئے بدرؔ ضرورت حراؔ کی ہے


اس عینیت پسندی نے انھیں ہرقدم پر مذہب کا سہارا لینے کی راہ دکھائی اور اس کو بچانے کے لئے انھوں نے ہرطرف اونچی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے نقصان نہ پہنچ سکے۔ عملی زندگی میں یہ اس طبقہ کے تحفظ کی تدبیر تھی جس سے خود اکبرؔ کا تعلق تھا۔ وہ انقلاب کے قائل تھے۔ انقلاب سے گھبراتے تھے۔ انقلاب کی حقیقت سے انکار بھی کرتے تھے۔ اپنی نگاہوں سے انقلاب کا تماشہ دیکھتے بھی تھے اور ان ساری باتوں کو اپنے فلسفۂ خیال سے ہم آہنگ بھی کر سکتے تھے کیونکہ تصور میں حقائق کی حدود سے باہر نکل بھاگنے کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ اکبرؔ حالات سے واقف نہیں تھے، مسلمانوں کی زوال آمادہ تہذیب کا علم نہیں رکھتے تھے، انگریزی حکومت کے معاشی استحصال کا اندازہ نہیں کر سکتے تھے، تہذیبوں کی اس ٹکر سے بے خبر تھے جو سیاسی میدان کے باہر تعلیمی دنیا میں ہورہی تھی۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کسی مادی فلسفہ کاسہارا نہ ہونے کی وجہ سے اکبرؔ کوئی اثباتی تجویز پیش نہیں کر سکتے تھے۔


وہ مسلمانوں کے زوال کی جستجو مادی حقائق میں نہیں اخلاقی کمزوریوں میں کرتے تھے۔ اس لئے وہ گھوم پھر کر داخلی تصورات کی مدد سے خارجی حقائق کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ادراک حقیقت کا یہ طریقہ رجعت پسندی کی طرف لے جاتا ہے اور انسان کی اجتماعی اور عملی جدوجہد سے فلسفہ اور سائنس کے جو قابل عمل طریقے وجود میں آئے ہیں، ان سے نظریں چراتا ہے۔ اکبرؔ کا تصوف بھی رجعت پسندی سے آزاد نہیں ہے، اس لئے اس میں بھی اس طبقہ کے دکھ درد کا علاج نہیں ملتا ہے، جس کی وہ ترجمانی کر رہے تھے۔


مشاہدے کی سچائی اور ادراکِ حقیقت کے تضاد کی اتنی دلچسپ مثال اکبرؔ کے سوا شاید اقبالؔ ہی کے یہاں مل سکتی ہے۔ گو دونوں میں بڑا فرق ہے لیکن کئی حیثیتوں سے اکبرؔ اقبال کے پیش رو ہیں۔ خودی، مغرب کی نقالی کی مخالفت، علم اور عقل کے مقابلہ میں وجدان اور عشق کی ترجیح، ملت کا تحفظ، نئی تعلیم کی سطحیت، سماج میں عورت کی جگہ، ان تمام مسائل پر غور کرتے ہوئے اقبالؔ اور اکبرؔ کا خیال ساتھ ساتھ آتا ہے۔ مگر یہاں اس تقابلی مطالعہ کا موقع نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اکبرؔ کی وہ بنیادی خامی کیا تھی جس کی وجہ سے وہ حقائق کا تصور کرنے کے باوجود نتائج نکالنے میں غلطی کرتے تھے۔ اس کا جواب گو اوپر کی سطروں میں موجود ہے لیکن اس کا واضح کرنا ضروری ہے۔


اکبرؔ انگریزوں کے غلام ہندستان میں کیا دیکھتے تھے، اس کا تجزیہ کس طرح کرتے تھے، اس سے قومی زندگی میں جو انتشار پیدا ہو رہا تھا، اسے کیا سمجھتے تھے، یہاں کی تہذیب پر جو ضرب کاری لگ رہی تھی، اسے کس نظر سے دیکھتے تھے، انگریزوں کے تعلیمی نظام کے کھوکھلےپن کو کس طرح ہندوستان کے لئے مضر سمجھتے تھے، انگریزی سیاست اور چال بازی کی تہیں کس طرح کھولتے تھے، ان کی نقالی میں کیا کیا نقصانات انھیں نظر آتے تھے، انگریز ہندوستانیوں کو کھلونے دے دے کر کس طرح بہلاتے تھے، مذہبی اختلاف پیدا کرکے فرقہ پرستی کو کس طرح ہوا دیتے تھے، اکبرؔ تمام باتوں سے واقف تھے۔ ثبوت کے لئے یہ شعر دیکھئے،


کر گئی کام نگاہِ بت پر فن کیسا
تج چلے دیر و حرم شیخ وبرہمن کیسا


انجن آیا نکل گیا زن سے
سن لیا نام آگ پانی کا


بات اتنی اور اس پہ یہ طومار
غل ہے یورپ کی جانفشانی کا


علم پورا ہمیں سکھائیں اگر
تب کریں شکر مہربانی کا


نئی تعلیم سے کیا واسطہ ہے آدمیت کو
جنابِ ڈارونؔ کو حضرتِ آدم سے کیا مطلب


اب اور چاہئے نیٹو کے واسطے کیا بات
یہی بہت ہے مشرف ہوئے سلام سے ہم


نیشنل وقعت کے گم ہونے کا ہے اکبرؔ کو ڈر
آفیشل عزت کا اس کو کچھ مزہ ملتا نہیں


ملک میں مجھ کو ذلیل وخوار رہنے دیجئے
آپ اپنی عزتِ دربار رہنے دیجئے


ٹیمز میں ممکن نہیں نظارۂ موج فرات
ایسی خواہش کو سمندر پار رہنے دیجئے


پہونچنا داد کو مظلوم کی مشکل ہی ہوتا ہے
کبھی قاضی نہیں ملتا، کبھی قاتل نہیں ملتا


کیا کہوں اس کو بد بختیٔ نیشن کے سوا
اس کو آتا نہیں اب کچھ ایمی ٹیشن کے سوا


یہ بات غلط کہ ملکِ اسلام ہے ہند
یہ جھوٹ کہ ملکِ لچھمن و رام ہے ہند


ہم سب ہیں مطیع و خیر خواہِ انگلش
یورپ کے لئے بس ایک گودام ہے ہند


گولیوں کے زور سے کرتے ہیں وہ دنیا کو ہضم
اس سے بہتر اس غذا کے واسطے چورن نہیں


یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے


مغربی کل نے مجھ کو پیسا ہے
میرا چونا ہے اور کلیسا ہے


کونسلوں میں سوال کرنے لگے
قومی طاقت نے جب جواب دیا


توپ کھسکی پروفیسر پہونچے
جب بسولا ہٹا تو رندہ ہے


ایسے ہزاروں اشعار اکبرؔ کے دواوین میں مل سکتے ہیں جن میں انگریزی حکومت، طرز حکومت، ان کے نصب العین، استحصال، بے انصافی وغیرہ پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ ہندوستانیوں کو نااتفاقی پر لعنت و ملامت کی گئی ہے اور اپنی بے بسی کا ماتم کیا گیا ہے،


جو میری ہستی تھی مٹ چکی تھی، نہ عقل میری نہ جان میری
ارادہ ان کا دماغ میرا، خیال ان کا زبان میری


سانس لیتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں
یہ نہ سمجھیں کہ آہ بھرتا ہوں


اتنی آزادی بھی غنیمت ہے
سانس لیتا ہوں بات کرتا ہوں


شیخ صاحب خدا سے ڈرتے ہیں
میں تو انگریز ہی سے ڈرتا ہوں


اکبرؔ یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی ایسی زنجیروں میں گرفتار ہیں کہ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ انھیں اس کا احساس ہے کہ ان حالات میں کسی دوسرے شاعر کے امکان میں یہ نہیں تھا کہ وہ انگریزی استحصال اور سیاسی چال بازی کا پردہ اس طرح چاک کر سکے اور طنز کے پردوں میں چھپاکر ایسے زہریلے نشتر انگریزوں اور ہندوستانیوں دونوں پر لگائے۔ گو انھوں نے یہ کہا ہے،


بتانِ مغربی کی مدح و ذم کی بحث نازک ہے
سکوت اس وقت اولیٰ ہے نہ یس کہئے نہ نو کہئے


لیکن بڑی جرأت سے یہ بھی کہہ سنایا،


جو بات بتائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے فقط سرکاری ہے


نہ ہو مذہب میں جب زورِ حکومت
تو وہ کیا ہے فقط اک فلسفہ ہے


اسلامی حکومت کا خیال بھی اس انداز فکر کا لازمی نتیجہ کہا جا سکتا ہے جو اکبرؔ کے یہاں پایا جاتا ہے۔ مغرب اور اس کی تمام خصوصیات سے نفرت اور ارتقا کا خوف سب کی بنیادیں ایک ہی ہیں۔ وہ ہر موقع پر انھیں کمتر کرکے دکھاتے ہیں تاکہ مشرق (بلکہ اسلام کہنا زیادہ صحیح ہوگا) کی برتری کا نقش روشن ہو سکے، ایسے موقع پر ان کی اپیل مذہبی جذبات ہی سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اسی لنگر کے سہارے اکبرؔ کی کشتی ٹھہری ہوئی ہے اور مخالف ہوائیں اسے ڈانواں ڈول کر رہی ہیں،


نئی تہذیب میں دقت زیادہ تو نہیں ہوتی
مذاہب رہتے ہیں قائم فقط ایمان جاتا ہے


طفلِ دل محوِ طلسمِ رنگِ کالج ہو گیا
ذہن کو تپ آ گئی مذہب کو فالج ہو گیا


اکبرؔ کی نگاہیں وہ سب کچھ دیکھ سکتی ہیں جو ہونے والا ہے اور وہ ہواؤں کے رخ کو پہچانتی بھی ہیں لیکن ان کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور پھر یہ مقابلہ بھی محض خیال کی دنیا میں ہوتاہے اور وہ ذہن میں سمجھوتہ کرکے فتح کے خیال سے خوش ہو لیتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھئے،


یہ موجودہ طریقے راہیٔ ملکِ عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے


نہ خاتونوں میں رہ جائےگی یہ پردے کی پابندی
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجبِ روئے صنم ہوں گے


بدل جائے گا اندازِ طبائع دورِ گردوں سے
نئی صورت کی خوشیاں اور نئے اسباب غم ہوں گے


خبر دیتی ہے تحریکِ ہوا تبدیلِ ملت سے
نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے


بہت ہوں گے مغنی نغمۂ تقلیدِ مغرب کے
مگر بے جوڑ ہوں گے اس لئے بے تال وسم ہوں گے


ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہوگی
لغاتِ مغربی بازار کی بھاکا سے ضم ہوں گے


بدل جائےگا معیارِ شرافت چشم دنیا میں
زیادہ تھے جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے


کسی کو اس تغیر کا نہ حس ہوگا، نہ غم ہوگا
ہوئی جس ساز سے پیدا اسی کے زیر وبم ہوں گے


تمھیں اس انقلابِ دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ
بہت نزدیک ہے وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے


یہ پوری غزل یا نظم ایک تفصیلی تبصرہ چاہتی ہے کیونکہ اس میں تغیر کے احساس کی تصویر کشی کے ساتھ اس سے آنکھیں چرانے اور مقابلے سے بچنے کے احساس کا بیان بھی ہے لیکن اس کی گنجائش نہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ اکبرؔ کے یہاں مایوسی، غم، خواہشِ مرگ، بے ثباتی دنیا، طاعتِ حق، عقبیٰ، قناعت وغیرہ کے خیالات بڑھتے گئے ہیں۔ سیاسی طنز، مشرق ومغرب کے جھگڑے کم ہوتے گئے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ انھیں ماضی بھی مشکوک نظر آنے لگا ہے،


پرانی روشنی میں اور نئی میں فرق اتنا ہے
انھیں کشتی نہیں ملتی، انھیں ساحل نہیں ملتا


وہ اس شکل میں سمجھوتے پر رضامند ہو گئے،


قائم یہی بوٹ اور موزا رکھئے
دل کو مشتاقِ مس ڈ سوزا رکھئے


ان باتوں پر معترض نہ ہوگا کوئی
پڑھئے جو نماز اور روزہ رکھئے


اکبرؔ کا ذہن جس ناآسودگی کا شکار تھا وہ جذباتی تھی۔ مغرب سے آئی ہوئی ہر چیز کے مقابلہ نے انھیں اور ان کے مقصد کو کمزور بنا دیا۔ وہ ٹائپ کے حروف اور پائپ کے پانی، ٹم ٹم اور بائیسکل، ریل اور انجن ہر چیز کی شکایت پر اتر آئے اور گو انھوں نے ہندوستان کو مغرب کی کھوکھلی اور غلامانہ نقالی سے بچانے کے لئے مبلغانہ انداز میں بڑا کام کیا لیکن اس دھن میں انھوں نے مغربی علوم اور سائنس کی مخالفت کرکے ہندوستان پر معاشی ترقی اور نئے سیاسی شعور کے دروازے بند بھی کرنے کی کوشش کی۔ ان کا طبقاتی شعور ایک تصور پرست کا شعور تھا۔ ان کے خیالوں میں حقیقت کی آمیزش تھی لیکن بنے بنائے عقائد کے نیچے دبی ہوئی تھی۔


اکبرؔ کا فن ان کے خلوص اور جوش کی وجہ سے غیرمعمولی قوت رکھتا ہے اور اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اسے کسی انفرادی آسودگی کے لئے نہیں بلکہ اجتماعی آسودگی کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ حالانکہ جماعتی مفاد کا مادی تصور نہ ہونے کی وجہ سے وہ عملاً صرف ان کی انفرادی ذہنی آسودگی تک محدود رہ جاتا تھا۔ یہی تضاد انھیں ناکامی اور شکست کا احساس دلاتا ہے جس کی تہہ تک وہ نہ پہنچ سکے۔


اکبرؔ کی شاعری اور فن کا مطالعہ انیسویں صدی کے ربع آخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی بیس سالوں کے سمجھنے میں بہت معاون ہوگا۔ ان کا کلام خاص کر مسلمان خواص اور متوسط طبقہ کی بے بسی اور ذہنی کیفیت کا ترجمان بن کر اس دور کی معاشی اور تہذیبی کشمکش کا اندازہ لگانے میں بڑی مدد دےگا۔