عجیب لڑکی
عجیب لڑکی ہے وہ
کہ اس کو خدا بنایا تو وہ خفا ہے
چہار جانب
عبادتوں کا حصار کھینچا
مسافتوں کے شجر اگائے
ہراس کی وسعتوں کو میں نے
طلسم صوت و صدا سے باندھا
ہواؤں کو سمت آگہی دی
شبوں کے زخمی کبوتروں کو لہو پلایا
فلک پہ نیلاہٹیں بکھیریں
خلا میں قوس قزح کے رنگین پر اڑائے
نگاہ و دل کی فصیل پر جسم و جاں سجائے بدن اگائے
مگر وہ لڑکی
خدائی پا کر بھی مضمحل ہے
وہ خوش نہیں ہے
وہ کہہ رہی تھی
کہ تم نے مجھ کو خدا بنایا
تو کیا یہ سمجھوں
کہ کوئی مجھ سے بھی بالاتر ہے