عجب کیا حوصلے اے دل ہمارے ٹوٹ جاتے ہیں

عجب کیا حوصلے اے دل ہمارے ٹوٹ جاتے ہیں
عتاب گردش دوراں سے تارے ٹوٹ جاتے ہیں


ہوئی ہیں ریزہ ریزہ خود چٹانیں ہم سے ٹکرا کے
مگر ہم دیکھ کر آنسو تمہارے ٹوٹ جاتے ہیں


میں چاہوں مسکرانا تو چھلک جاتے ہیں اب آنسو
کہ اکثر سیل دریا سے کنارے ٹوٹ جاتے ہیں


نصیحت اے مری بیٹی ہمیشہ دھیان میں رکھنا
سہاروں پر نہ تکیہ ہو سہارے ٹوٹ جاتے ہیں


قمرؔ اس بزم دنیا سے نبھائیں اپنا رشتہ کیا
جو ٹوٹی سانس تو رشتے ہی سارے ٹوٹ جاتے ہیں