عجب فریب سا وہ اس کا مسکرانا تھا

عجب فریب سا وہ اس کا مسکرانا تھا
اسے تو جیسے فقط مجھ کو آزمانا تھا


غضب کی بات کہ تم کو بھی اس زمانے میں
مرا ہی گھر تھا جہاں بجلیاں گرانا تھا


اسے جہاں میں کوئی دوسرا عدو نہ ملا
نظر میں اس کی فقط میں ہی اک نشانا تھا


جو سوز غم سے مجھے ہر نفس بچاتا رہا
خیال یار کی پلکوں کا شامیانہ تھا


تو دل کا سادہ تھا عازمؔ تجھے پتہ نہ چلا
کہ دل لگانا یہاں صرف دل جلانا تھا