ایسی کہاں اتری ہے کوئی شام مری جان

ایسی کہاں اتری ہے کوئی شام مری جان
اشجار پہ لکھا ہے ترا نام مری جان


کٹتے ہیں کہاں ایک سے دن رات یہ موسم
ہے زیست بھی اک حسرت ناکام مری جان


کھیتوں میں کہاں اگتے ہیں لفظوں کے مراسم
حرفوں کی تجارت میں گئے نام مری جان


مجھ کو نہیں پہنچی تری خوشبو تو کروں کیا
بے شک تو رہے لالہ و گلفام مری جان


ہر گام تعلق کی صلیبوں پہ چڑھے ہیں
چھٹتا ہی نہیں ذات کا ہنگام مری جان


مٹ جائیں گے سب رنج و الم قرب سے تیرے
بھیجا ہے تجھے پیار کا پیغام مری جان


پلکوں پہ دھرے خوابوں کے لاشے نہ اٹھانا
ہے آس یہی عشق کا انجام مری جان