ایسے ویسوں کو یہاں ہم نہیں گنتے صاحب
ایسے ویسوں کو یہاں ہم نہیں گنتے صاحب
آپ اچھے ہیں بہت اچھے ہیں ہوں گے صاحب
کس کے ملنے کی خوشی کس کے بچھڑنے کا غم
ٹوٹتے رہتے ہیں مٹی کے کھلونے صاحب
تہ بہ تہ گرد گناہوں کی جمی ہے اس پر
جانماز اپنی ذرا اور جھٹکئے صاحب
باتوں باتوں ہی میں کیا جان نکالو گے مری
ہو چکی بات ذرا دور سرکیے صاحب
تم ہو عالمؔ وہی آوارہ طبیعت والے
یہ بتاؤ مجھے تم ہو گئے کب سے صاحب