اے مری جان آرزو مانع التفات کیا

اے مری جان آرزو مانع التفات کیا
ہوگا نہ وقف دل کبھی کیف تبسمات کیا


مست نظر اگر نہیں ساغر دل میں بادہ ریز
بزم نوازشات کیا دور توجہات کیا


کب سے ہیں رند منتظر چشم کرم پہ ہے نظر
شوخ نگاہ کے لیے وجہ تکلفات کیا


ڈھونڈتی پھرتی ہے نظر شاہد بزم ناز کو
اس کو مگر خبر نہیں کیف تصورات کیا


حسن طلب یہ ہے کہ تو اس سے اسی کو مانگ لے
اس کے سوا حیات کیا مقصد کائنات کیا


اپنے ہی دل کی بزم میں اس کا جمال دیکھیے
دیدۂ شوق کے لیے اور حریم ذات کیا


شوق و طلب سے تاجؔ اب عالم اضطراب ہے
ایک ذرا سے دل میں یہ شورش کائنات کیا