اے کاش نہ ہوتا یہ اثر آہ رسا میں
اے کاش نہ ہوتا یہ اثر آہ رسا میں
اک برہمی آتی ہے نظر زلف دوتا میں
داخل جو ہوا حلقہ تسلیم و رضا میں
پاتا نہیں وہ فرق سزا اور جزا میں
اس انجمن ناز میں کیا کام قضا کا
ہوں سیکڑوں انداز جہاں ایک ادا میں
معراج محبت میں ہوئیں لازم و ملزوم
ہے ایک کشش میری وفا تیری جفا میں
ثابت یہ ہوا درد محبت کے اثر سے
تاثیر دعا میں ہے نہ تاثیر دوا میں
دل جھکتے ہیں ایسے کہ کبھی سر نہیں اٹھتے
عشاق نے کچھ پایا ہے نقش کف پا میں
اک عقدہ ہے جو کھل نہیں سکتا ہے کسی سے
یہ کس نے گرہ ڈالی ترے بند قبا میں
بیخودؔ کا نشاں پوچھتے ہو قافلے والو
اک گرد سی اڑتی ہوئی دیکھا ہے ہوا میں