اے غم دل کیا کروں

اتنی گزری ہے گراں چیزوں کی ارزانی مجھے
ہو گیا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے
دودھ میں بالکل نظر آتا نہیں پانی مجھے
دل نے کر رکھا ہے محو صد پریشانی مجھے
''اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں''
کام دھندا کچھ نہیں دل کس طرح بہلاؤں میں
کیوں نہ لیڈر بن کے ساری قوم کو بہکاؤں میں
جب نہیں دھندا تو چندا ہی کروں اور کھاؤں میں
اسکریننگ کی کمیٹی کے نہ ہاتھ آ جاؤں میں
''اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں''
کیوں نہ اڈیٹر بنوں اخبار گوہر بار کا
اور قلم کو روپ دوں چلتی ہوئی تلوار کا
ہاتھ میں شملہ ہو سب اشراف کی دستار کا
مارشل لا میں مگر پہلا ہے ٹکڑا مار کا
''اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں''
سوچتا ہوں پھر کہ حج کر آؤں اسمگلر بنوں
مال دین و مال دنیا کا بڑا ڈیلر بنوں
ملک کے اندر بنوں یا ملک کے باہر بنوں
الغرض جو کچھ بنوں میں فوج سے بچ کر بنوں
''اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں''
کیا خبر تھی قیمتیں یوں ہوں گی سستی ایک دن
''رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن''
چور بازاری کی مٹ جائے گی ہستی ایک دن
ہوگی شیورولیٹ پہ بھی ٹو لیٹ کی تختی ایک دن
''اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں''
بحر کے سینے سے سونا تک اگلوایا گیا
گندم خلوت نشیں بازار میں لایا گیا
اور ذخیرہ باز سے چکی میں پسوایا گیا
نفع خوروں کا دوالہ تک نکلوایا گیا
''اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں''
ہائے کشکول گدائی لے کے اب جائے گا کون
لال گندم لا کے ہم کالوں کو کھلوائے گا کون
جس کو امریکی سور کھاتے تھے وہ کھائے گا کون
ساتھ میں گندم کے مسٹر گھن کو پسوائے گا کون
''اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں''
غیر ملکی مال کو روتی ہیں اب تک بیبیاں
اور ہر امپورٹ کے لائسنس کو ان کے میاں
غیر بنکوں میں جو دولت ہے وہ آئے گی یہاں
''یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں''
''اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں''
یا میں سب کچھ چھوڑ دوں اور چور بازاری کروں
زندگی کی فلم میں ایسی اداکاری کروں
دونوں ہاتھوں سے کما کر عذر ناداری کروں
جب حکومت ٹیکس مانگے آہ اور زاری کروں
''اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں''