اے باد صبا چل
یوں آئے ہیں گھر گھر کے یہ دکھ درد کے بادل
تاریک فضاؤں میں گھلا جیسے ہو کاجل
بے چین ہیں بے تاب ہیں بے آس ہیں بے کل
لہرا دے ذرا آ کے تو امید کا آنچل
اے باد صبا باد صبا باد صبا چل
گلشن میں نہ وہ رنگ نہ وہ روپ رہا ہے
غنچے کی نہ اب آنکھ میں وہ کیف بھرا ہے
کب پھول کے سینے میں دھڑکنے کی صدا ہے
سناٹا سا سناٹا ہے حرکت ہے نہ ہلچل
اے باد صبا باد صبا باد صبا چل
کانٹوں سے ہے صد چاک ہر اک گل کا گریباں
ہر سمت سے ہے بجلیوں کی زد میں گلستاں
سویا ہے ابھی تان کے چوکھٹ پہ نگہباں
ڈستی ہے سویرے کو سیہ رات ہر اک پل
اے باد صبا باد صبا باد صبا چل
تو آئے تو گلشن کا حسیں چہرہ نکھر جائے
ہر غنچہ مہک جائے ہر ایک پتا سنور جائے
کمہلائے سے پھولوں کا بھی کچھ حال سدھر جائے
باقی رہے قسمت میں کوئی خم نہ کوئی بل
اے باد صبا باد صبا باد صبا چل
تو آئے تو پھر کیف و مسرت کی فضا آئے
اس خاک میں جینے کا اور مرنے کا مزہ آئے
سینوں میں امنگ اٹھے تو پھر جوش نیا آئے
اور رات کے چہرے پہ ڈھلک جائے پھر آنچل
اے باد صبا باد صبا باد صبا چل
آ جا کہ ذرا شغل مئے و جام کریں گے
کچھ تذکرۂ یار دلآرام کریں گے
رنگین ہر اک صبح ہر اک شام کریں گے
اور نغمے سنیں گے حسیں و شوخ اور چنچل
اے باد صبا باد صبا باد صبا چل
اے باد صبا چل