سیاسی وابستگی کے اظہار کے لیے اپنے اخلاق و کردار کو داؤ پر لگانا درست نہیں
کوئی مانے یا نہ مانے، کسی کا دل و دماغ اسے تسلیم کرے یا نہ کرے، اور کسی کے لیے یہ بات کتنے ہی دکھ اور تکلیف کی ہو، لیکن اس وقت یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوچکی ہے اور اس وقت اپوزیشن جماعتوں پر مبنی اتحاد ملک پر حکومت کررہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے سے لے کر اب تک جو واقعات رونما ہوئے ہیں اور جس انداز سے ہوئے ہیں ان سے بحیثیت قوم دنیا میں ہماری سبکی اور شرمندگی ہی ہوئی ہے ، ہمیں کوئی اعزاز نہیں ملا جس سے ہم دنیا کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔ دونوں طرف کے سیاسی قائدین کی جانب سے جو انداز اور داؤ پیچ اختیار کیے جاتے رہے ، ان کی مثال سیاسی حربے، مکاری اور چالاکی کے طور پر تو دی جاسکتی ہے لیکن انہیں مثال بنا کر کسی ملک یا قوم کو ان کی پیروی کرنے کا نہیں کہا جاسکتا۔ یہ عبرت کی مثالیں ہی کہی جائیں گی اور ان سے سبق ہی حاصل کیے جائیں گے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس پورے سیاسی کھیل میں ہمیں جو نقصان سب سے بڑا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی اور ہم میں سے ہر ایک نے انفرادی طور پر اپنی شخصیت میں موجود تحمل، رواداری، برداشت اور احترام کے جذبات کا گلا گھونٹ دیا ہے اور ان کی بجائے درشتی، الزام تراشی، عدم رواداری ، دشنام طرازی اور تحقیر و تکفیر جیسے رذائل کو اپنی سیاسی وابستگی کے اظہار کا ذریعہ ٔمحض بناڈالا ہے۔ ہم سب کو حق ہے کہ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بنیں، اس کے لیے بات کریں، سوشل میڈیا ہو یا گلی محلے کی سیاست ، ہمارا یہ حق ہے کہ جس بات کو، جس سیاسی قائد کو، جس موقف کو ہم درست سمجھتےہوں اس کی حمایت و طرف داری کے لیے اپنی منطق ترتیب دیں اور اس پر دوسروں کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ لیکن ہمیں یہ حق کیسے حاصل ہوگیا کہ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے دوسروں پر کیچڑ اچھالیں، ان کے نام بگاڑیں، انہیں گالی دیں ، انہیں ایسے القابات سے نوازیں جو ہم اپنے لیے کبھی پسند نہ کریں، ان کے گھر تک باتیں سڑکوں پر کریں، ان کے بزرگوں کو برا بھلا کہیں جو بیچارے اب اس دنیا میں موجود ہی نہیں اور اپنی قبروں میں اپنے اعمال کے حساب کے لیے محشر کے منتظر ہیں۔
سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہوتے ہوئے ہم اپنے ہر موقف کی دلیل دین سے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہمیں یہ اندازہ بھی ہونا چاہیے کہ ہمارے دین نے ہمارے لیے زندگی کے ہر شعبے کے کچھ آداب بتائے ہیں۔ ان کا خیال رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ گفتگو کے آداب ہیں، چھوٹے بڑے سے بات کرنے کا ایک سلیقہ ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے، اوئے توئے سے بات کرنا ہمارے دین میں شرافت سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔ محفلوں اور مجلسوں کے آداب بتائے گئے ہیں۔ ایک دوسرے پر بہتان لگانے والے کے لیے قرآن خود سخت وعیدیں سناتا ہے، بدگمانی سے منع کرتا ہے، غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے جیسا کریہہ فعل قرار دیتا ہے۔ دشنام طرازی یعنی گالی دینے کو اسلام لانے کے بعد فسق یعنی گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ سب باتیں ہم کیوں بھول جاتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد کیوں نہیں رہتا ہے کہ حدیث کے مطابق مسلمان تو مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
سیاسی وابستگیاں اپنی جگہ لیکن انہیں اس درجہ بڑھا لینا کہ یہ وابستگی سے بڑھ کر عصبیت بن جائے ،اور عصبیت بھی ایسی کہ جس کی وجہ سے ہمارے رشتے ناتے اور تعلق سب داؤ پر لگ جائیں، کسی طور بھی درست نہیں۔ہماری کچھ وابستگیاں ان سیاسی وابستگیوں سے بڑھ کر بھی ہیں۔ ہم اپنی نام نہاد جذباتیت کی رو میں بہہ کر ان کو بھی بھول جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، ہماری وابستگی ہمارے دین کے ساتھ بھی ہے، ہماری حب الوطنی کے کچھ تقاضے ہیں، ہمسایہ داری کے کچھ تقاضے ہیں۔ کیا ان سب کا ہماری زندگی میں کوئی کردار نہیں۔ کیا اگر آج خدانخواستہ پاکستان او ربھارت کی جنگ شروع ہوجائے تو ہم تکبیر کے نعروں کے ساتھ ساتھ پاکستان فوج زندہ بعد کے نعرے نہیں لگائیں گے، ضرور لگائیں گے، کیونکہ ہماری اپنی فوج سے وابستگی کلمہ لاالہ کے تحت ہے اور ہماری سیاسی و جماعت وابستگیوں سے سِواہے، ماورا ہے ۔ لہٰذا ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر وہ شخصیت اور ہر وہ کردار جو ہمیں ہمارے ادارو ں کے ہی خلاف کھڑا کرنا چاہتا ہے، ہم سے مخلص ہے اور نہ پاکستان سے۔ یہ دشمن خود ہے یا اس کا کوئی آلہ کار۔ سیاسی وابستگیوں کے اظہار کے دوران اداروں کو کسی طور نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔عجب طرفہ تماشا ہے کہ جن سیاست دانوں کے لیے ہم اپنی مستقل وابستگیوں کو داؤ پر لگادیتے ہیں ان میں سے اکثر کی اپنی کوئی مستقل سیاسی وابستگی نہیں ہوتی۔ ہمارے ایسے سیاسی عاشقوں کے لیےعزیز میاں مرحوم بڑی حسرت سے اپنی قوالیوں میں اکثر یہ شعر گنگنایا کرتے تھے:
پڑھی نماز جنازے کی میرے غیروں نے
مرے تھے جن کے لیے ، وہ رہے وضو کرتے
آخری بات ، ہے تو چھوٹی لیکن بہت اہم ہے۔ وہ یہ کہ ہر بات جو زندگی میں آپ اپنی زبان سے نکالتے ہیں، یا جدید زمانے کے لحاظ سے کہہ لیجیے کہ ہر وہ پوسٹ جو سوشل میڈیا پر آپ شیئر کرتے ہیں یا پوسٹ کرتے ہیں، آپ کی شخصیت کا، آپ کی ذات کا، آپ کے کردار کا ایک پرتَو یعنی عکس ہے، ایک ریفلکشن ہے، ایک اظہار ہے۔ جیسے آپ کے کھانے پینے کے انداز اور پہننے اوڑھنے کے اطوار سے آپ کی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے ، اسی طرح ان سب چیزوں سے بھی آپ کی شخصیت کا حسن وقبح سب واضح ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے اپنی شخصیت و کردار کے حسن اور خوب صورتی کو بچائیے۔اپنی ذات کو بد صورت اور بدشکل ہونے سے بچائیے! سب سے پہلے اپنے امیج کو بگڑنے سے بچانے اور سنوارنے کی کوشش کیجیے۔ یہ سب سے قیمتی ہے۔