عہد سزا
یہ ایک عہد سزا ہے جزا کی بات نہ کر
دعا سے ہاتھ اٹھا رکھ دوا کی بات نہ کر
خدا کے نام پہ ظالم نہیں یہ ظلم روا
مجھے جو چاہے سزا دے خدا کی بات نہ کر
حیات اب تو انہیں محبسوں میں گزرے گی
ستم گروں سے کوئی التجا کی بات نہ کر
انہی کے ہاتھ میں پتھر ہیں جن کو پیار کیا
یہ دیکھ حشر ہمارا وفا کی بات نہ کر
ابھی تو پائی ہے میں نے رہائی رہزن سے
بھٹک نہ جاؤں میں پھر رہنما کی بات نہ کر
بجھا دیا ہے ہوا نے ہر ایک دیا کا دیا
نہ ڈھونڈ اہل کرم کو دیا کی بات نہ کر
نزول حبس ہوا ہے فلک سے اے جالبؔ
گھٹا گھٹا ہی سہی دم گھٹا کی بات نہ کر