عہد حاضر کے مسائل اور صوفیہ کا پیام امن
تصوف دنیا کو امن، عدم تشدد اور محبت و بھائی چارہ کا درس دیتا ہے۔ صوفیہ نے پوری دنیا کو محبت کا پیغام دیا۔ ان کا اخوت ومحبت کا پیغام آج بھی بامعنیٰ ہے جودلوں کو جوڑنے کا کام کرسکتا ہے۔ تصوف کی سب سے بنیادی تعلیم ہے کہ انسان اپنے خالق ومالک سے ایساروحانی رشتہ جوڑے کہ اسے اپنے دل کے آئینے میں ساری دنیا کا عکس نظرآنے لگے۔ اس طرح دل سے دل کے تار جڑتے چلے جائینگے اور کوئی بھی اس کے لئے غیر نہیں رہ جائے گا۔ پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا، پنڈت بھیا نہ کوئے ڈھائی آکھر پریم کے پڑھے سو پنڈت ہوئے تصوف کہتا ہے کہ خدا ایک ہے۔ اس کی نظر میں اس کے سارے بندے ایک ہیں۔ اللہ سے محبت ہی انسانی زندگی کا مقصد ہے۔ محبت ہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ جو انسان اس محبت کو پا لیتا ہے اسے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ صوفیہ نے اپنے پرائے کے دائرے سے باہر نکل کر پوری دنیا کی بھلائی کے لئے انسانیت پر زور دیا۔ انہوں نے کسی بھی تفریق سے اوپر اٹھ کر انسان کے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا۔ خدا کو حاصل کرنے کے لئے جوگی بننا ضروری نہیں ہے۔ گھر گرہستی میں رہ کر بھی خدا سے رشتہ جوڑا جا سکتا ہے۔ بیوی، بچوں سے محبت ہے تو خدا سے بھی محبت ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا کو اپنا گھر، خاندان سمجھنے والے صوفیوں نے محبت کی ایک ایسی مشعل روشن کی جس کی روشنی میں آج بھی پوری دنیا اپنا راستہ صاف صاف دیکھ سکتی ہے۔ محبت دو دلوں میں فاصلہ رہنے نہیں دیتیمیں تم سے دور رہ کر بھی تمہیں نزدیک پاتا ہوں عہد بنوامیہ اور بنو عباسیہ میں جب علوم تفسیر، حدیث اور فقہ کی تدوین ہورہی تھی اسی زمانے میں تصوف نے بھی ایک الگ شعبے کے طور پر شناخت بنائی اور اسی دور میں یہ عالم اسلام کے نصاب تعلیم کا سب سے اہم حصہ بن گیاتھا۔ تصوف نے اسلامی معاشرے کے شہری اور دیہی علاقوں میں اپنی جڑیں جما لیں اور بڑے پیمانے پر سماجی، سیاسی اور ثقافتی اثر ڈالا۔ اس نے مذہب کے نام پر جاری ہر قسم کی منافرت کے خلاف آواز اٹھائی۔ عہد وسطیٰ، جس میں سیاسی پاگل پن پوری شدت سے موجود تھا، اس زمانے میں لوگوں کو اخلاقیات کا سبق پڑھایااور دنیا میں امن و ہم آہنگی کے قیام میں بڑا کارنامہ انجام دیا۔ تصوف کا سب سے اہم کردار یہ ہے کہ اس نے وسط ایشیا سے برصغیر ہندو پاک تک سماج کو جوڑنے کا کام کیا۔ آج ایک بار پھر دنیا اس کی ضرورت محسوس کر رہی ہے اور ایک بار پھر تصوف کی جانب رخ کر رہی ہے۔ آج عالمی سطح پر اس کا چرچا ہے۔ تصوف ہمیں باہمی محبت اور امن کا پیغام دیتا ہے۔ دوستی اور خیر سگالی کا یہ پیغام مسلسل دنیا کے ہر کونے میں پہنچتا رہے، اس کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ تصوف محض مذہب نہیں، بلکہ دماغ کی اعلیٰ کیفیت کا نام ہے۔ تصوف ایک دوسرے کو ملانے والی اہم طاقت ہے۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والا ترانہ ہے جس نے پوری دنیا پر جادو کر رکھا ہے۔ اب جب کہ دنیا اسلامی تعلیمات کی روح یعنی تصوف کی جانب واپس لوٹنے کے لئے بے قرار ہے اور اس کے دامن میں امن وشانتی کا پیغام اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ رہی ہے تو ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ کتابوں میں دفن صوفیوں کی تعلیمات کو عام کریں اور اسے دنیا تک پہنچائیں۔ یقین جانیئے جس دن دنیا نے ان پیغاموں سے آگہی حاصل کرلی اسی دن اس دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا اور امن کا قیام بھی ممکن ہوسکے گا، کیونکہ جو لوگ بھی آج دہشت گردی میں ملوث ہیں اور دنیا میں امن کے دشمن بنے بیٹھے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو اہل تصوف کی تعلیمات سے دور ہیں۔ دہشت گردی کا حل صوفیوں کی تعلیمات میں ہے۔ اس پر عمل کئے بغیردہشت گردی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ صوفیوں نے امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ آج کچھ قوتیں نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر تشدد کے راستے پر لے جانا چاہتی ہیں، اگر آنے والی نسل کو تشدد اور دہشت گردی سے روکنا ہے تو انھیں صوفیہ کی تعلیمات سے قریب کرنا ہوگا۔ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات سے دنیا کو روبرو کرنا ہوگا، خواجہ معین الدین چشتی کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہوگا، حضرت نظام الدین اولیاء کے امن کے سبق سے لوگوں کو آشنا کرنا ہوگا۔ شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے انسانی سماج اور جنگل راج میں یہ واضح فرق ہے کہ انسانی سماج کا ایک دستور ہوتا ہے جب کہ جنگل میں کوئی قانون نہیں چلتا ہے۔ ہر طاقت ور جانور کمزور جانور کو کھاجاتا ہے۔ مگر انسانی معاشرہ میں ایسا نہیں چل سکتا۔ انسان کو بقائے باہم کے دستور پر چلنا پڑتا ہے اور ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے مطابق زندگی گزارنا پڑتا ہے۔ یہ حق پورے مہذب سماج کا ہے۔ اس کے بغیر کوئی انسانی معاشر ہ وجود میں نہیں آسکتا۔ بقائے باہم کا اصول اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حقوق کا حصہ ہے۔ ویسے بھی اگر انسان، خون انسانی کااحترام کرنا بند کردے تو یہ دنیا باقی نہیں بچے گی اور سب کچھ تہس نہس ہوجائے گا۔ بقائے باہم کے اصول کو توڑنا ہی بنیادی طور پر دہشت گردی ہے۔ یہ جرم کوئی ایک انسان کرے، پوری جماعت کرے یا کوئی ملک کرے، بہرحال غلط ہے۔ جو انسان ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے، وہی دہشت گرد ہے اور وہ اس سماج میں رہنے کے لائق نہیں۔ ملکی قوانین انسان کو دہشت گردی سے روکنے کا کام کرتے ہیں اور قانون کے خوف سے لوگ جرائم سے رک جاتے ہیں مگر صوفیہ کی تعلیمات میں دہشت گردی اور تشدد سے بچائو کا ایک مختلف راستہ اپنایاجاتا ہے۔ وہ انسان کو انسان کا احترام سکھاتا ہے۔ تصوف بتاتا ہے کہ اللہ ہروقت، ہرجگہ انسان کی نگرانی کر رہاہے، اس لئے اسے کبھی بھی قدرت کے قانون کے خلاف نہیں جانا چاہئے۔ اللہ، انسان کے دلوں کے بھید سے بھی واقف ہے لہٰذا دل کے اندر بھی ایسا خیال نہ لایا جائے۔ تصوف انسان کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ وہ اس قسم کے ظالمانہ کاموں کی طرف مائل ہی نہ ہو۔ یہاں آدمی کی سوچ کو مثبت بنایا جاتا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ فلاں شخص میرے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے، کیا میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کروں توآپ نے فرمایا کہ، ہرگزنہیں۔ اگر کوئی تمہارے راستے میں کانٹے بچھائے اور تم بھی اس کے راستے میں کانٹے بچھائو تو یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔ کانٹوں کا جواب کانٹے ہرگز نہیں ہوسکتے۔ صوفیہ کرام کی یہی تعلیمات انسان کے اندر مثبت اسپرٹ پیدا کرتی ہیں اور اسے ظلم وتشدد سے روکتی ہیں۔ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو دنیا کو اسی سوچ کی جانب آنا پڑے گا۔ اس تعلیم وتربیت کی ضرورت آج جس قدر ان جماعتوں کے لوگوں کو ہے جو حکومتوں کے خلاف مسلح ہوکر کھڑے ہوئے ہیں، اس سے زیادہ ان حکمرانوں کو ہے جن کے غیرمنصفانہ اقدام نے تشدد اور دہشت گردی کو جنم دیا ہے۔ مظالم کی ممانعتبرصغیر ہندوپاک میں چشتی سلسلہ کے بزرگوں کی تعلیمات کا زیادہ اثر رہا کیونکہ یہاں خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے کو رائج کیا اور ان کے بعد ملک بھر میں اس سلسلے کو فروغ حاصل ہوا۔ خواجہ صاحب نے اپنے پیرومرشدخواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کا قول اپنی کتاب انیس الارواح کی دسویں مجلس میں بیان کیا ہے جو اس طرح ہے، ’’جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں، وہ ایسا ہوتا ہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، اگر وہ مرجائے تو اس کا شمار شہداء میں ہوگا۔ پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اسکی ہزارضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزادکرتا ہے اور جنت میں اسکے لئے محل مخصوص کرتا ہے۔‘‘ قابل غور پہلو یہ ہے کہ جن صوفیہ کی نظر میں پیاسے کو پانی پلانا، بھوکے کو کھانا کھلانا اور پریشان حال شخص کی پریشانی دور کرنا، اللہ کی رضامندی کا ذریعہ ہے، وہ کسی کو اس بات کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں کہ وہ کسی پر ظلم وتشدد کرے یا دہشت گردی میں ملوث ہو۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں، ’’حق تعالیٰ کی خوشنودیوں میں کوشش کرنا چاہئے اور مخلوق خدا پر رحم کرنا چاہئے۔ اللہ کے حکم کی تعظیم کرنا اور االلہ کی مخلوق پرشفقت کرنا یہ دونوں آخرت کی نجات کے لئے اصلِ عظیم ہیں۔‘‘ ہندوستان میں صوفیہ کے پیغام کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ جنھوں نے اسے قبول کیا، انھوں نے اپنے ظاہر وباطن میں تبدیلی کا احساس کیا مگر جنھوں نے اسے سیدھے طور پر نہیں اپنایا، انھوں نے بھی اس کے اثرات ضرور قبول کئے۔ اس کے زیر اثر ہی ’’بھکتی تحریک‘‘ کی ابتدا ہوئی۔ یہی سبب ہے کہ تصوف وبھکتی تحریک کے اثرات یہاں کے سماج پر گہرے ہیں۔ قرون وسطی کے ہندوستان کی ثقافتی تاریخ میں ’’بھکتی تحریک‘‘ کی خاص اہمیت ہے۔ اس تحریک نے بر صغیر کے معاشرے پر خاصا اثر ڈالا۔ یہ صوفیہ کی تحریک تصوف کے زیر اثر سامنے آئی۔ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں صوفیہ کے آستانوں پر پیغام توحید کا نغمہ قوالی کی شکل میں گونجا کرتا تھا اور فارسی وہندوی شعراء کے کلام میں جو مواد پایا جاتا تھا، وہی بھگت نامدیو، سنت کبیر داس، میرا اور سور داس کے کلام میں بھی دیکھنے کو ملا۔ انھوں نے اپنی رچنائوں کے ذریعے خدا کی حمد اور اس کی بھکتی پر زور دیا۔ پہلے سکھ گرو، اور سکھ مذہب کے بانی گرونانک دیو جی بھی بھکتی تحریک کے ہی کوکھ سے آئے تھے۔ وہ سنت اور سماجی مصلح تھے۔ انہوں نے ہر قسم کے ذات پات کے بھید بھائو اور مذہبی تعصب کی مخالفت کی۔ انہوں نے خدا کوایک مانا اور ہندو و مسلم سماج میں موجود تنگ نظری کے خلاف آواز اٹھائی۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ صوفیہ کی تعلیمات نے ہندوستان کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے اور یہاں کے عوام وخواص کے ظاہر وباطن کو متاثر کیا۔ تصوف ایک ایسی قوت کے طور پر ابھرا جو سماج کو جوڑے رکھ سکتا تھا۔ کچھ طاقتوں کی جانب سے عوام اور ملک کو بانٹنے کی کوششیں لگاتار ہوتی رہی ہیں مگر جس بات نے اس ملک کو جوڑے رکھا، وہ صوفیہ کی تعلیمات میں موجود محبت واخوت کا وہ درس ہے جسے ہندوستانیوں نے جانے انجانے میں اپنے باطن کا حصہ بنارکھا ہے۔ وہ امن میں یقین رکھتے ہیں، وہ عدم تشدد سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اور تشدد ونفرت کو ناپسند کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کی طرف سے عوام کو تقسیم کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں اورسیاسی فائدے کے لئے بھائی چارہ کو توڑنے کی سازشیں بھی کی جاتی ہیں مگر ان کا اثر زیادہ مدت تک باقی نہیں رہتا۔ یہاں وقتی جذبات کے تحت دنگے فساد بھی ہوجاتے ہیں مگر جلد ہی لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ دوبارہ امن وآشتی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ یہ سب صوفیہ کی تعلیم کا ہی اثر ہے جو اس خطے کو اکیسویں صدی میں بھی متحد رکھے ہوئے ہے۔ علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو، جانے کس کس سے محبت کیوں نہیں کرتے، محبت کرکے دیکھونا