اگرچہ منہ سے وہ کہتا نہیں ہے
اگرچہ منہ سے وہ کہتا نہیں ہے
مگر حال اس کا کچھ اچھا نہیں ہے
مقابل آئینہ ہے سوچتا ہوں
یہ چہرہ تو مرا چہرہ نہیں ہے
وہاں کرتے رہے صحرا نوردی
جہاں کوسوں کوئی سایا نہیں ہے
سنو کہ زرد موسم کے اثر سے
گلوں کا حال کچھ اچھا نہیں ہے
جلے سپنے بجھی چشم تمنا
مگر اب تک کوئی آیا نہیں ہے
نہ جانے رات بھر کیوں سوچتا ہوں
یہ زنداں ہے مرا کمرہ نہیں ہے
اکیلے میں ملوں پاشاؔ سے کیسے
کسی لمحہ بھی وہ تنہا نہیں ہے