اگرچہ کوئی بھی اندھا نہیں تھا
اگرچہ کوئی بھی اندھا نہیں تھا
لکھا دیوار کا پڑھتا نہیں تھا
کچھ ایسی برف تھی اس کی نظر میں
گزرنے کے لئے رستہ نہیں تھا
تمہی نے کون سی اچھائی کی ہے
چلو مانا کہ میں اچھا نہیں تھا
کھلی آنکھوں سے ساری عمر دیکھا
اک ایسا خواب جو اپنا نہیں تھا
میں اس کی انجمن میں تھا اکیلا
کسی نے بھی مجھے دیکھا نہیں تھا
سحر کے وقت کیسے چھوڑ جاتا
تمہاری یاد تھی سپنا نہیں تھا
کھڑی تھی رات کھڑکی کے سرہانے
دریچے میں وہ چاند اترا نہیں تھا
دلوں میں گرنے والے اشک چنتا
کہیں اک جوہری ایسا نہیں تھا
کچھ ایسی دھوپ تھی ان کے سروں پر
خدا جیسے غریبوں کا نہیں تھا
ابھی حرفوں میں رنگ آتے کہاں سے
ابھی میں نے اسے لکھا نہیں تھا
تھی پوری شکل اس کی یاد مجھ کو
مگر میں نے اسے دیکھا نہیں تھا
برہنہ خواب تھے سورج کے نیچے
کسی امید کا پردا نہیں تھا
ہے امجدؔ آج تک وہ شخص دل میں
کہ جو اس وقت بھی میرا نہیں تھا