اگر ہو آدمیت آدمی میں

ہزاروں سال کی بوڑھی ہے دنیا
مگر پھر بھی نئی لگتی ہے دنیا
وہی ساگر وہی ان کی روانی
وہی پربت وہی ان کی جوانی
وہی جنگل وہی اشجار ان کے
وہی منظر وہی اسرار ان کے
وہی بادل ہزاروں روپ والے
چمکتے دن سنہری دھوپ والے
وہی دن رات کے منظر سہانے
وہی پنچھی وہی ان کے ترانے
وہی گلشن وہی ان کی بہاریں
وہی معصوم پودوں کی قطاریں
وہی جھرنے وہی ندیوں کا پانی
وہی نغمے وہی دل کش کہانی
وہی صبحیں وہی گلنار شامیں
وہی مہتاب و انجم اور راتیں
وہی دھرتی وہی ماں جیسی دھرتی
نظر آتی ہے جو فردوس عرضی
زمیں پر نیکیاں زندہ رہیں گی
تو یہ شاید زندہ رہیں گی
نہ ہوگی آدمیت آدمی میں
تو کیا آبادیاں زندہ رہیں گی