اگر دلا غم گیسوئے یار بڑھ جاتا
اگر دلا غم گیسوئے یار بڑھ جاتا
شب فراق میں اور انتشار بڑھ جاتا
جو شوق جنبش مژگان یار بڑھ جاتا
ترا مزا خلش نوک خار بڑھ جاتا
جو میری چشم کے پردے شریک ہو جاتے
کمال دامن ابر بہار بڑھ جاتا
وطن میں ہم نہ ہوئے خاک شکر کی جا ہے
غبار خاطر اہل دیار بڑھ جاتا
دکھائی کیوں نہ مجھے آ کے گرمیٔ رفتار
بلا سے آپ کی میرا بخار بڑھ جاتا